Skip to main content

قاتلان ِامام حسین کون؟

یسے تمام نواصب یہ جھوٹ پھیلاتے آئے ہیں کہ امام حسین کے قاتل شیعان ِ اھل بیت (ع) ھی تھے۔ اس آرٹیکل میں ھم اس جھوٹے دعوٰی میں موجود تمام خامیوں پر روشنی ڈالینگے۔ اس موضوع کے متعلق ناصبی حضرات کے دٰعوں کا خلاصہ یہ ہے۔

1. شیعوں نے امام حسین (ع) کو خطوط کے ذریعے کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی بیعت کریں اور اپنا امام تسلیم کر سکیں۔

2. امام حسین (ع) نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کی صحیح صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔

3. شیعوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ذریعے امام حسین کی بیعت کی۔

4. عبیداللہ ابن ذیاد کی کوفہ آمد پر انہی شیعوں نے مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا۔

5. شیعہ امام حسین کی مدد کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے اُن کا قتل ہوا۔

ھم نے اس آرٹیکل میں تمام تاریخی شواھد کو مد ِنطر رکھتے ہوے اھل ِکوفہ کے اصل عقیدہ کو بیان کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا ھے کہ سید الشھداء اور ان کے رفقاء کے اصل قاتل کون تھے اور آج کون اان قاتلان کے پیروکار ہیں۔​
خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعہ بالمقابل عقیدتی امامی شیعہ
آج کل سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی لوگوں کی جانب سے بہت سننے میں آتا ہے کہ شیعوں نے حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین اور اہل بیت کے دیگر آئمہ کا ساتھ نہ دیا یا انہیں قتل کر دیا اور اس سلسلے میں تاریخ کی کچھ کتابوں سے حوالاجات بھی پیش کر دئے جاتے ہیں لیکن سپاہ صحابہ کے مکار ناصبی صرف عام لوگوں کو ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں، ہم شیعانِ اہل بیت کے سامنے ان باتوں اور ایسے حوالاجات رکھنے کی ان کی کبھی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم اس تاریخی حقیقت سے نا آشنا نہیں کہ پچھلے زمانے میں شیعہ ہونے کا وہ مطلب نہیں تھا جو آج ہے ، اُس وقت تو سب ہی کو بشمول جنہیں آج سنی کہا جاتا ہے ، شیعہ ہی کہا جاتا تھا۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے کس شیعہ گروہ نے وہ حرکات کیں جن کا الزام ناصبی حضرات آج کل کے شیعوں پر لگا رہے ہیں۔ بس اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائیگا اور سپاہ صحابہ جیسے ناصبیوں کے مکروہ چہرے عیاں ہو جائینگے اور جو انشاء اللہ ہم اس آرٹیکل میں کرینگے۔

انصار ویب سائٹ کے مصنف کی پیٹ میں بھی کچھ ایسا ھی درد اٹھا

اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا حسین کی مدد نہیں کی انہیں غیر شیعہ کہا جائے۔ جعفری لکھتا ہے

'ان میں سے جنہوں نے امام حسین کو کوفہ بلایا اور پھر وہ 1800 جو امام حسین کے نمائندمسلم بن عقیل کی خدمت میں آئے وہ تمام مذہبی اعتبار سے شیعہ نہیں تھے بلکہ سیاسی بنیاد پر علی کے گھرانے کے حمائتی تھے۔ یہ ایک فرق جو قدیم شیعہ تاریخ جاننے کے لئے واضح طور پر ذہن نشیں کر لینا چاہئے'

سید نا حسین کا ساتھ چھوڑنے والوں کو گھرانہِ علی کے پیروکاروں سے الگ رکھنے کا جعفری کا مقصد عیاں ہے۔ وہ اس حقیقت پر شرم سار ہے کہ یہ شیعہ ہی تھے جنہوں نے اپنے امام کو بغاوت کی قیادت کرنے کے لئے دعوت دی اور پھر ان کی مدد نہ کی۔ ہم جس چیز پر جعفری کے مذہبی اور سیاسی پیروکاروں میں فرق کرنے کو رد کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود سید نا حسین نے کوفیوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ اپنا شیعہ کہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ شیعہ کوفہ کو اپنا نہیں تسلیم کرتے لیکن اپنی پہچان تحریک توابین کے ساتھ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تحریکِ توابین کی ابتداء میں کی گئی تقاریر سے یہ واضح ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سید نا حسین کو آنے کی دعوت دی اور بعد میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں ان کا یہی نام ان کی ندامت کو ظاہر کرتا ہے۔ شیعوں کی جانب سے سید نا حسین کا ساتھ نہ دینے کے گناہ سے دور رہنے کی کوشش اور کچھ نہیں بس ایک ضعیف کوشش ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اہل سنت کو یہ نام تو بہت بعد میں ملا، جس زمانے کا ناصبی مصنف نے ذکر کیا اُس دور میں تو سب کو شیعہ ہی کہا جاتا تھا جن میں آج کل کے اہل سنت بھی شامل تھے لہذا ناصبی مصنف جب پچھلےدور کا ذکر کرے تو واضح کرے کہ وہ کس شیعہ گروہ کی بات کرتا ہے؟ معروف شیعہ مخالف اسکالر محدث شاہ عبد العزیز دہلوی نے بھی تصدیق کی ہے کہ اُس وقت تمام مسلمان شیعہ ہی کہلائے جاتے تھے۔

" اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ شیعہ اولیٰ کہ فرقہ سنیہ و تفضیلیہ ہر دو کو شامل ہے پہلے شیعہ کے لقب سے مشہور تھا اور جب غلاۃ ، روافض ، زیدیوں اور اسماعیلیوں نے یہ لقب اپنے لئے استعمال کیا اور عقائد و اعمال میں ان سے شر و قباح سرزد ہونے لگے تو حق و باطل کے مل جانے کے خطرہ سے فرقہ سنیہ اور تفضیلیہ نے اپنے لئے اس لقب کو ناپسند کیا اور اس کی جگہ اھل ِ سنت وجماعت کا لقب اختیار کیا
تحفہ اثنا عشری (اردو) ، صفحہ 16 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی

آج کل اثنا عشری یا امامی اہل تشیع ماضی میں "رافضی" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شیعہ کے لفظی معنی ہیں "گروہ" یا "حامی"۔ چونکہ اہلِ کوفہ نے جنگِ جمل و صفین میں علی ابن ابی طالب کا ساتھ دیا، اس لیے انہیں خالصتاً سیاسی معنوں میں"علی کا شیعہ" کہا جانے لگا یعنی حضرت علی کا حامی یا حضرت علی کا گروہ۔ اسکے مقابلے میں معاویہ کی فوج کو "شیعانِ معاویہ" یا پھر"شیعانِ عثمان" بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن ان سیاسی شیعانِ عثمان یا شیعانِ علی کے علاوہ لفظ شیعہ کا استعمال ایک اور گروہ کے لئے بھی ہوتا تھا جو کہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہبی اور عقیدتی معنوں میں سچا پیروکار تھا اور انہیں اللہ کی جانب سے براہ راست مقرر کردہ امام و خلیفہ بلافصل مانتا تھا اور جسے آج دنیا شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ کے نام سے جانتی ہے، جنہوں نے کبھی بھی شیخین {یعنی حضرت ابوبکر و عمر} اور حضرت عثمان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا جبکہ دیگر شیعہ گروہ جن کا اوپر ذکر ہوا وہ ایسا کرتے تھے لہٰذا آج یہ لوگ اہلِ سنت و الجماعت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

آجکل جس مذہبی و عقیدتی گروہ کو 'مامی شیعہ' کہا جاتا ہے، انہیں ماضی میں عثمانیوں کی طرف سے مذھبی معنوں میں 'رافضی' کہا جاتا تھا جبکہ لفظ 'شیعہ' سیاسی معنوں میں ہر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جو کہ فوجِ معاویہ کے خلاف فوجِ علی میں شامل تھا، یا جس نے معاویہ کے خلاف علی ابن ابی طالب (ع) کی حمایت کی حالانکہ مذہبی طور پر وہ شخص شیخین (پہلے دو خلفاء) کی خلافت کو جائز و برحق مانتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا یہ سیاسی استعمال ختم ہوتا گیا اور صرف مذہبی گروہ باقی رہ گیا جو اپنے آپ کو مستقل 'الشیعہ' کہتا رہا اور شیخین کی خلافت کو ماننے سے انکار کرتا رہا، جبکہ اُسکے مخالف اُسے 'رافضی' کہتے رہے۔

ناصبی حضرات کی جانب سے سیاسی شیعت کے وجود کا انکار

ناصبی حضرات ابھی تک اس بات کے انکاری ہیں کہ شیخین کی خلافت ماننے والوں کو ماضی میں کبھی شیعہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکے اس دعویٰ پر حیرت ہے کیونکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ان سیاسی شیعوں کا وجود کئی سو سالوں تک رہا ہے۔ مگر پھر بھی آج اگر سپاہ صحابہ جیسے نجس ناصبی ان سیاسی شیعوں کے وجود کے منکر ہیں، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ماننے والوں کو ان سیاسی شیعوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں تو کوئی بھی اُنکے اس پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دے گا کہ امامی شیعوں نے حسین (ع) کو قتل کیا ہے، لہٰذا وہ اپنی شیعہ دشمنی کی دکان مسلسل چلاتے رہنے کی غرض سے اس تاریخی حقیقت سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ نہیں کرتے۔

آئیے اب ہم ثابت کرتے ہیں کہ ان خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعوں کا وجود مولا علی (ع) کے دور سے شروع ہو کر کئی سو سال تک جاری رہا۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں:

سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی

تحفہ اثناء عشری (اردو) ، صفحہ 27 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی
نوٹ : 37 ہجری میں حضرت علی(ع) اور معاویہ کے درمیاں صفین کے مقام پر جنگ ہوئی تھی۔

کئی سو سال تک اھل سنت کے محدثین اور علمائے رجال کا سیاسی شیعوں کے وجود کو تسلیم کرنا

نہ جانے کب تک اس دور کے ناصبی اپنا منہ اپنی بغل میں ڈال کر اھل کوفہ کا امامی شیعہ ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے رہیں گے، جبکہ اھل سنت کے جمیع محدثین نے اس بات کی صراحت سے وضاحت کی ہے کہ "شیعہ" کی اصطلاح جن معنوں میں آج کے دور میں استعمال ہوتی ہے، ماضی میں اسکا مطلب یہ نہیں تھا۔ اس بات کی تفصیل ھم اھل سنت کے معتبر ترین اماموں میں سے ایک یعنی امام ذھبی کی کتاب 'میزان الاعتدال' سے ثبوت کے طور پر پیش کرھے ھیں:

بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين على رضى الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين - إلا من شاء ربك - فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن - معشر أهل السنة - أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم. فهذا تشيع خفيف.

ھاں، اھل شام کی اکثریت نے صفین کے زمانے سے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرنا بند کردیا تھا۔ اور وہ اپنے آپ کو اور اپنا اجداد کو راہ ِحق پر جانتے تھے جیسا کہ اھل ِکوفہ حضرت عثمان سے انحراف اورعلی سے محبت کرتے کیونکہ اُن کے آباء و اجداد علی کے شیعہ اور حامی تھے جبکہ ھم اھل سنت چاروں خلفاء سے محبت کرتے ھیں ۔ عراقی شیعوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہ علی اور عثمان دونوں سے محبت رکھتا تھا مگر وہ علی کو عثمان پر فوقیت دیتے تھے اور اُن لوگوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے تھے جنہوں نے
علی سے جنگیں کیں، اگرچہ کہ وہ اُن کی مغفرت کی دعائیں کرتے تھے، اور یہ شیعت کی نرم قسم ہے۔
میزان الاعتدال، جلد 3، صفحہ 552

اسی طرح امام بن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، ج 1 ص 82 میں لکھتے ھیں:

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان...مع تقديم الشيخين وتفضيلهما

پچھلے (علماء) کے مطابق شیعت علی کو عثمان پر فوقیت ھونے کا عقیدہ رکھنے کو کہتے تھے ۔۔۔اگرچہ وہ شیخین (یعنی ابو بکر اور عمر) کو ان پر فوقیت دیتے تھے

ذھبی اور ابن حجر عسقلانی کی تحریر کا مطلب ہے:

1. کوفہ کے شیعہ خلافتِ شیخین کے قائل تھے۔

2. مگر کوفہ کے شیعوں کا ایک گروہ عثمان ابن عفان کی خلافت کا ایسے ہی انکار کرتا تھا جیسا کہ اھل شام مولا علی (ع) کی خلافت کے منکر تھے۔

3. مگر کوفہ کے شیعوں کا ہی ایک گروہ تھا جو عثمان ابن عفان کو بھی دوست رکھتا تھا، مگر فرق صرف اتنا تھا کہ وہ علی کو عثمان پر فوقیت دیتے تھے۔

4. کوفہ کے شیعوں کا یہ دوسرا گروہ نہ صرف پہلے تین خلفاء کی خلافت کا قائل تھا، بلکہ دیگر تمام لوگ جنہوں نے علی سے جنگیں کیں، مثلا ام المومنین جناب عائشہ، طلحہ و زبیر اور معاویہ وغیرہ، ان سب کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتا تھا۔

تو یہ تھے کوفہ کے سیاسی شیعوں کے عقائد، جو کہ نجس ناصبیوں کے منہ پر کرارہ تھپڑ ہیں اور اُنکے تمام تر پروپیگنڈے کا جواب ہیں۔ یہی نھیں بلکہ آج اھل سنت و ناصبی حضرات اپنے جن قدیم علماء کی پیروی کرتے اور ان کی کتابوں کو سینوں سے لگائے پھرتے ھیں ، ان ھی قدیم علماء میں سے بعض ایسے بھی رھے جو اسی طریقے کے شیعہ تھے یعنی وہ آج کل کے معنوں میں ھر اعتبار سے سنی تھے بس حضرت علی کو حضرت عثمان پر فوقیت دیتے تھے۔ انھیں علماء میں سے ایک امام سفیان ثوری (المتوفی 161 ھ) بھی تھے جن کی تفسیر کی کتاب اھل سنت میں کافی مشھور ھے اور اسی کتاب میں ابتدائی کلمات تحریر کرتے ھوئے علامہ امتیاز علی العریشی نے صفحہ 15 پر لکھا:

وكان التشيع في تلك الايام منحصرا في تفضيل علي على عثمان رضي الله عنهما ، فلا يبعد ان يكون الثوري يفضل هذا على ذاك

پچھلے دور میں شیعہ کا مطلب صرف علی کو عثمان (رض) پر فوقیت دینا تھا اور ھم اس بات کو خارج از امکان قرار نھیں دیتے کہ ثوری علی کو عثمان پر فوقیت دیتے تھے

یہی نھیں بلکہ اگر شمار کرنا شروع کیا جائے تو علماءِاھل ِسنت کے اسلاف میں کئی نام ایسے ظاھر ھوجائنگے جو کہ شیعہ ھی کھلائے جاتے تھے۔ اختصار کی بنا پر صرف ایک مثال اور پیش کئے دیتے ھیں،۔ شاھ عبدالعزیز محدث دھلوی اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ ، ص 25 پر تحریر کرتے ھیں:

امام ابو حنیفہ کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ھوا کرتا تھا

پچھلے دور کے غالی شیعہ بھی خلافتِ شیخین کے قائل تھے

اب تک تو بات ھوئی بس عام شیعہ لوگوں کی جو چاروں خلفاء کے متعلق مختلف قسم کے عقائد رکھتے تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عام شیعہ تو ایک طرف ذھبی نے صاف طور پر یہ بھی بیان کیا ہے کہ "غالی شیعہ" کا مطلب آج کے دور میں دوسرا ہے، جبکہ حضرت علی کے دور میں اسکا بھی کچھ اور مطلب ہوتا تھا۔ میزان الاعتدال میں اسکی تشریح کرتے ہوئے ذھبی نے لکھا ھے:

فالشيعي الغالى في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضى الله عنه، وتعرض لسبهم.والغالي في زماننا وعرفنا هو الذى يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضا

پچھلے دور میں (یعنی اسلام کی پہلی صدیوں میں) "شیعہ غالی" اُسے کہا جاتا تھا جو عثمان، طلحہ، زبیر اور معاویہ اور وہ سب جنہوں نے علی سے لڑائی کی، اُن میں نقص نکالتا تھا اور اُن کو بُرا بھلا کہتا تھا۔ جبکہ ہمارے دور میں "غالی" اُسے کہتے ہیں جو ان شخصیات کی تکفیر کرے اور شیخین (یعنی ابو بکر اور عمر) سے بیزاری اختیار کرے۔
میزان الاعتدال ، جلد 1، صفحہ 6
نوٹ: الذھبی کو تکفیر کے معاملے میں غلطی ہوئی ہے

کیا اسکے بعد بھی کچھ گنجائش باقی رہتی ہے کہ اھل کوفہ کے عام شیعوں کو عقیدتی طور پر خلافتِ شیخین ماننے والے کے بجائے عقیدتی امامی شیعہ کہا جائے اور اھل کوفہ کے گناہوں کا سارا بوجھ آج کے عقیدتی امامی شیعوں کے سر ڈال دیا جائے؟

بے شک جو آج ایسا کرتے ہیں، وہ انصاف کی جگہ ظلمِ عظیم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لاریب اللہ نے حکم فرمایا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ مگر یہ ھدایت مسلمانوں کے لیے ہے اور ناصبی حضرات اسکا پاس کریں۔۔۔۔۔ یہ وہ جانیں اور اللہ جانے۔

علی ابن ابی طالب (ع)اور انکے سیاسی شیعہ

حسین (ع) اور اُنکے کے کوفہ میں سیاسی شیعوں پر نظر ڈالنے سے قبل ضروری ہے کہ مولا علی (ع) اور انکے وقت میں اھل کوفہ کے سیاسی شیعوں کے کردار پر ایک نظر ڈالی جائے تاکہ ان سیاسی شیعوں کا کردار مزید واضح ہو سکے۔

1. قتلِ عمر کے بعد اھل مدینہ نے علی ابن ابی طالب (ع) کو خلافت کی پیشکش کی اس شرط کے ساتھ کہ وہ قران و سنتِ رسول کے ساتھ ساتھ سنت شیخین کی اتباع کا بھی وعدہ کریں( حوالہ:شرح فقہ اکبر، صفحہ 66) ۔

2. علی ابن ابی طالب (ع) نے اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا اور یوں خلافت عثمان ابن عفان کے ہاتھوں میں آ گئی۔ عثمان نے جب اھل عراق پر فاسق و فاجر قسم کے اموی گورنر مقرر کیے تو اسی کوفہ سے ایک فوج عثمان کو قتل کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ انکا کہنا یہ تھا کہ وہ عثمان ابن عفان کو قتل کریں گے کیونکہ انہوں نے سنتِ شیخین کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے، یعنی عقیدتی طور پر وہ لوگ شیخین کی خلافت کے پیروکار تھے۔ بلکہ وہ تمام فوجیں جو مصر، کوفہ و بصرہ سے آئیں وہ سب کے سب عقیدتی طور پر سنتِ شیخین کے ماننے والے تھے اور اسی لیے عثمان ابن عفان کے قتل کے طالب ہوئے تھے۔

3. مدینہ میں جن صحابہ و تابعین وغیرہ نے پہلی مرتبہ علی ابن ابی طالب کی خلافت پر بیعت کی، وہ بھی مذھبی طور پر شیخین کی خلافت کے قائل تھے۔ انہی مدینے والوں کی فوج کو لے کر مولا علی (ع) جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے۔ پھر انہی لوگوں کو لیکر آپ کوفہ منتقل ہوئے تاکہ معاویہ سے جنگ کی جا سکے۔ اس سارے وقت کے دوران یہ فوج شیعانِ علی کہلاتی رہی۔

4. جنگ صفین جو کہ مولا علی (ع) کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد ہی لڑی گئی، اس میں اس کوفی فوج کو شیعانِ ِعلی کے سیاسی نام سے ھی پکارا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مختصرعرصہ میں علی ابن ابی طالب کے لیے ممکن تھا کہ کوفہ کی اکثریت کو مذہبی طور پر تبدیل کر کے امامی شیعہ بنا دیتے؟

5. اسی کوفی سیاسی شیعہ فوج نے (جو خلافتِ شیخین پر یقین رکھتی تھی) مولا علی (ع) کا عین فتح کے قریب ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ مالک اشتر (ایک عقیدتی شیعہ) کو جنگ سے واپس بلا لیں، ورنہ وہ خود مولا علی (ع) کو قتل کر دیں گے۔

6. اسی کوفی سیاسی شیعہ فوج کا ایک حصہ (جو خلافتِ شیخین پر یقین رکھتا تھا) تحکیم کے موقع پر مولا علی (ع) کا بالکل مخالف ہو گیا اور جنگ و جدل کے لیے تیار ہو گیا۔

7. اسی کوفی سیاسی شیعوں کی مولا علی (ع) مذمت کرتے رہے۔ مثلا آپ کا کوفہ والوں کو خطاب کہ:

کل تک میں امیر تھا، مگر آج تم ہی میرے حاکم اور میں تمہارا محکوم ہو گیا۔ کل تک میں تم کو منع کرتا تھا مگر آج تم ہی مجھ کو منع کرتے ہو (نھج البلاغہ)

8. اور انہی کوفہ والوں کو مخاطب کر کے مولا علی (ع) نے فرمایا:

یا ایھا الفرقتہ! یعنی اے وہ فرقہ جس کو میں کوئی حکم دیتا ہوں تو مانتا نہیں اور کسی بات کی طرف بلاتا ہوں تو آتا نہیں

9. پھر ایک جگہ مولا علی (ع) نے کوفہ والوں کے لیے فرمایا:

یعنی کوفہ والو! ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے میری آنکھ جھپک گئی تو خواب میں حضرت رسول خدا (ص) ظاہر ہوئے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ، آپ کی امت سے مجھ کو کس قدر پریشانی اور جھگڑے کا سامنا ہوا۔ حضرت (ص) نے فرمایا ان کے لئے بددعا کرو۔ میں نے اس طرح بددعا کی کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں سے بہتر مسلمان مرحمت فرما اور ان کو مجھ سے بدتر حاکم دے۔

10. اور ایک دفعہ فرمایا تھا:

خدا کی قسم تم لوگوں کے ہاں خوشی سے نہیں آیا بلکہ مجبورا آنا پڑا۔ لیکن میں نے سنا کہ تم کہتے ہو علی جھوٹ بولتے ہیں خدا تمہیں غارت کرے میں کس پر جھوٹ بولوں گا۔

یہ ہے مولا علی (ع) کے زمانے میں کوفہ کے ان خلافتِ شیخین ماننے والے سیاسی شیعوں کی مختصر تاریخ۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ، جو کہ آج بھی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کوفی سیاسی شیعوں کو عقیدتی شیعہ (امامی شیعہ) ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ انہی جنگوں کے دوران عقیدتی شیعوں کا ایک گروہ مستقل طور پر مولا علی (ع) کی وفاداری کا ثبوت دیتا رہا۔ مثلا عمار یاسر اور مالک اشتر وغیرہ۔​
اھل ِکوفہ کا اصل عقیدہ
اہل کوفہ کی اکثریت مذہبی معنوں میں ہمیشہ خلافتِ شیخین کے جائز ہونے کے قائل رہے۔ اہل سنت کے معروف عالم دین علامہ شبلی نعمانی اپنی شہرہ آفاق کتاب 'الفاروق' میں کوفہ شہر کی تعمیر و ترقی کا سہرا خلیفہ دوم عمر کے سر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

مدائن وغیرہ جب فتح ہو چکے تو سعد بن وقاص نے حضرت عمر کو خط لکھا کہ یہاں رہ کر اھل عرب کے رنگ و روپ بالکل بدل گئے۔ حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جو بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلیمان حذیفہ نے کوفہ کی زمین انتخاب کی اور اسکا نام کوفہ رکھا۔ غرض 18 ھ میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمر نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے۔ ہیاج بن مالک کے اہتمام سے عرب کے جُدا جُدا قبیلے جُدا جُدا محلوں میں آباد ہوئے۔ شھر کی وضع و ساخت کے متعلق خود حضرت عمر کا تحریری حکم آیا تھا کہ شارع ہائے عام 40، 40 ہاتھ اور اس سے گھٹ کر 30 ، 30 ہاتھ اور 20 ، 20 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں 7، 7 ہاتھ چوڑی ہوں ۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی تھی اس قدر وسیع تھی کہ اس میں 40 ہزار آدمی آسکتے تھے۔۔۔۔


جامع مسجد کے سوا ہر قبیلے کے لئے جُدا جُدا مسجدیں تعمیر ہوئیں ۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے اور قبائل جو آباد کئے گئے ان کے نام حسب ِ ذیل ہیں۔ سلیم ، ثقیف ، ہمدان ، بجبلۃ ، نیم الات ، تغلب ، بنو اسد ، نخ و کندہ ازد ، مزینہ ، تمیم محارب ، اسد و عامر ، بجالۃ جدیلۃ و اخلاط ، جہینہ ، مذحج ، ، ہواذن وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شھر حضرت عمر ہی کے زمانے میں اتنی اس عظمت وشان کو پہنچا کہ حضرت عمر اس کو راس ِ اسلام فرماتے تھے اور در حقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا تھا.۔

الفاروق ، صفحہ 232۔ 233 ، مکتبہ مدینہ لاہور


اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کے لوگ حضرت عمر کے اس حد تک وفادار تھے کہ عمر اس شہر کو اسلام کا مرکز کہنا شروع ہو گئے۔ اگر اب بھی نواصب کو کوئی شک ہو تو وہ ہمیں بتائیں کہ چالیس ہزار آدمیوں کی گنجائش والی جامع مسجد اور پھر ہزاروں کی تعداد میں بسائے گئے عرب قبیلوں کی الگ الگ مساجد جو حضرت عمر نے تعمیر کروائیں وہ سب شیعہ مساجد تھیں؟ کیا عمر ابن خطاب نے اتنے بڑے پیمانے پر ایک شیعہ شہر کی بنیاد رکھی تھی؟


ہمیں تاریخ کے کسی بھی معتبر دستاویز سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قتل ِ امام حسین (ع) کے وقت کوفیوں کی اکثریت مذھبی اعتبار سے شیعان ِ علی (ع) ہو اس کے برعکس ہمیں تاریخی شواہد ملتے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اھل ِکوفہ کی اکژیت عثمانی تھے۔ علامہ یاقوت حموی اھل سنت کے مشہور اسکالر گزرے ہیں جو کہ کتاب 'مجمع البلدان' کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں مختلف شہروں کی تفصیلی تاریخ موجود ہے اور اس کی جلد 7 صفحہ 295 سے 300 تک کوفہ شھر کی تاریخ تحریر ہے اور اس میں بھی ہمیں شیعوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملتی۔


مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ


باب نمبر 2 میں ہم نے واضح کیا تھا کہ قتل عثمان کے بعد جن لوگوں نے مولا علی (ع) کی بیعت کی، وہ خلافتِ شیخین کو ماننے والے ھی تھے۔ مولا علی (ع) نے اس بات کو خود اپنے بیان میں واضح فرمایا جو کہ نہج البلاغہ میں درج ہے:


میری بیعت کی انہی لوگوں نے جنہوں نے بیعت کی ابوبکر و عمر و عثمان کی، اسی اصول کی بنیاد پر جس پر ان کی بیعت کی تھی۔ لہذا اس اصول کے لحاظ سے موقع پر موجود رہنے والے کو دوبارہ نظرِ ثانی کا حق نہ تھا اور نہ ایسے شخص کو جو موجود نہ تھا اس فیصلہ کے مسترد کرنے کا حق پیدا ہو سکتا ہے اور شوریٰ مہاجرین و انصار کے ساتھ مخصوص ہے۔


کوفہ سے جو فوج عثمان کو قتل کرنے آئی تھی، اُس کا موقف بھی یہ تھا کہ عثمان چونکہ سنتِ شیخین کے خلاف گئے ہیں، اس لیے انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور کوفہ کے لوگ حد درجہ طلحہ بن عبید اللہ کے حمایتی تھے۔ اس بات کی گواہی میں تاریخ طبری میں کئی روایات ہیں۔ مثلاً امام ابن جریر طبری نے احمد بن زہیر سے، انہوں نے اپنے والد سے، اور وہ وہب بن جریر سے، اور وہ زہری سے بیان کرتے ہیں کہ:


طلحہ و زبیر قتلِ عثمان کے تقریباً چار مہینے کے بعد مکہ پہنچ گئے۔ مکہ میں اُسوقت عبداللہ ابن عامر کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے اور یمن سے یعلی بن امیہ بھی آ ملا جس کے پاس بہت سی دولت اور اموال تھا جو کہ چار سو اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔

یہ سب لوگ حضرت عائشہ کے پاس جمع ہوئے اور باہم مشورے کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ جا کر علی سے جنگ کرنی چاہئے، جبکہ دوسرے لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اُن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ اھل ِ مدینہ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ کوفہ یا بصرہ جائیں کیونکہ کوفہ میں طلحہ کے حمایتی اور چاہنے والے زیادہ ہیں۔ اور اسی طرح بصرہ میں زبیر کے حمایتی اور چاہنے والے موجود ہیں۔
چنانچہ آخر میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ بصرہ یا کوفہ چلنا چاہئے۔

اسی موضوع پر مزید کئی روایات پڑھنے کے لیے دیکھئے تاریخ طبری، سنہ 35 کے حالات۔


مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ میں عقیدتی امامی شیعہ جمع ہونے شروع ہوئے۔ چنانچہ مولا علی (ع) کے دور میں کوفہ میں دو طرح کے شیعہ پائے جاتے تھے:


1. خلافتِ شیخین کو تسلیم کرنے والے سیاسی شیعہ، جنہوں نے مولا علی (ع) کو بطور چوتھا خلیفہ تسلیم کیا تھا۔ یہی جماعت کوفہ میں اکثریت میں تھی۔


2. عقیدتی امامی شیعہ، جنہوں نے مولا علی (ع) کو بطور رسول کا ولی و وصی براہ راست امام تسلیم کیا تھا اور خلافت شیخین کو رد کیا تھا۔ یہ چند گنے چنے لوگوں پر مشتمل ایک اقلیتی جماعت تھی۔


ک
وفی سیاسی شیعوں کا خلافتِ عثمان کو بھی جائز تسلیم کرنا

کوفہ کے یہ سیاسی شیعہ خلافتِ شیخین پر تو جمع تھے ہی، مگر انکی اکثریت کا خلافتِ عثمان پر بھی کوئی اختلاف نہیں تھا کیونکہ اُن کے نزدیک عثمان ابن عفان کی بیعت انہی اصولوں کی بنیاد پر ہوئی تھی، کہ جن پر اس سے پہلے حضراتِ شیخین کی بیعت ہوئی تھی۔ اگر وہ عثمان ابن عفان کے مخالف ہوئےتھے تو اس بنیاد پر کیونکہ وہ سنتِ شیخین کی مخالفت میں اپنے رشتہ داروں کو گورنر بنانے لگے۔ اور چونکہ مولا علی (ع) کی بطور خلیفہ چہارم بیعت بھی انہی اصولوں پر ہوئی تھی، اس لیے معاویہ کے خلاف وہ اپنے خلیفہ چہارم کی حمایت میں جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اس لیے جب ایک جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اھل ِ کوفہ کے انہی اکثریتی سیاسی شیعوں کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے۔(حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، (ص) 189 مطبوعہ مصر)۔


جنگِ صفین میں جب فوجِ معاویہ کو شکست ہونے لگی اور عمر بن العاص کے مشورے سے معاویہ نے قرآن کو نیزوں پر بلند کروا دیا، تو یہی سیاسی شیعہ مولا علی (ع) پر تلواریں کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور جنگ بندی کی شرط رکھی۔ اور مالک اشتر جو عقیدتی امامی شیعہ تھے اور جنگ جاری رکھے ہوئے تھے اور فتح کے بہت قریب تھے، ان کی واپسی کی شرط رکھی۔ یہ واقعات آپکو تمام تر تاریخی کتب میں مل جائیں گے۔

جنگِ صفین کے بعد انہی خلافتِ شیخین کو ماننے والے کوفی سیاسی شیعوں کی ایک جماعت مولا علی (ع) کے خلاف بغاوت کر بیٹھی۔ اس خلافتِ شیخین کے ماننے والے گروہ کا نام خوارج تھا۔

جنگ نہروان سے فارغ ہونے کے بعد مولا علی (ع) اپنے ان سیاسی شیعوں سے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے کو وہ معاویہ کے خلاف جنگ میں ان کا گرم جوشی سے ساتھ دیں، مگر یہ لوگ سست پڑ گئے اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اس پر مولا علی (ع) نے انکی کھل کر مذمت کی جو کہ نہج البلاغہ کے کئی خطبات میں پائی جاتی ہے۔ مولا علی (ع) کی شہادت کے بعد انہی خلافتِ شیخین کے ماننے والے سیاسی شیعوں نے امام حسن (ع) کا ساتھ بھی نہ دیا۔ اور ان کا رویہ دیکھتے ہوئے امام حسن (ع) کو معاویہ سے صلح کرنی پڑی۔


امام حسین (ع) کے زمانے میں کوفہ کے سیاسی شیعہ


امام حسن (ع) کی معاویہ سے صلح کے بعد معاویہ پوری سلطنت کا بلاشرکت غیرے مالک بن گیا اور اسکی یہ خلافت 20 سال کے طویل عرصہ پر محیط تھی۔ معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد جو اہم کام کئے، وہ یہ تھے کہ:


1. زیاد بن سمعیہ کو اپنا بھائی قرار دیا (اس بنیاد پر کہ معاویہ کا باپ ابو سفیان نے زیاد کی ماں سمعیہ سے زنا کیا تھا اور اسی زنا کی بنیاد پر زیاد پیدا ہوا تھا)


2. مولا علی (ع) کے زمانے میں زیاد کوفہ میں تھا اور اس لیے مولا علی (ع) کے تمام شیعوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔


3. معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو بھائی بنا کر اپنا طرفدار بنا لیا، اور پھر کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا اور پھر شاہ عبدالعزیز دھلوی کی الفاط میں:


اب زیاد نطفہ ناتحقیق کی شرارت دیکھئے کہ معاویہ کی رفاقت میں پہلا فعل جو اس سے سرزد ھوا وہ جناب امیر کی اولاد کی عداوت تھی

تحفہ اثنا عشریہ، ص 308


4. زیاد بن سمعیہ نے کوفہ کے اُن تمام شیعوں کو (خاص طور پر مذھبی امامی شیعوں کو)، جو علی ابن ابی طالب کے سخت حامی تھے، چن چن کر قتل کیا۔ [حوالے: البدایہ والنہایہ ، ج 3 (ص) 50 ، حافظ ابن کثیر ، تاریخ کامل، ج 3 (ص) 245 ؛ ابن اثیر ، تاریخ طبری، ج 6 (ص) 155، الاستیعاب ، ج 1 (ص) 138]


علامہ عقیل بن حسین اپنی کتاب نصائح کافیہ، صفحہ 70 پر لکھتے ہیں:


معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور بصرہ کو بھی اس سے ملا دیا۔ زیاد چونکہ حضرت علی کے زمانے میں کوفہ میں رہ چکا تھا وہ یہاں کے شیعوں سے واقف تھا۔ اس نے ہر پتھر اور ڈھیلے کے نیچے سے انہیں نکال کر قتل عام کی ، ان کو دھمکیاں دیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے ، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا دیں ، ان کو درختوں پر سولی دی ، ان کو عراق سے نکال دیا اور غریب الوطن بنا دیا یہاں تک کہ شیعوں کا کوئی معروف شخص کوفہ میں باقی نہ بچا.


یہ تھا وہ سلوک جو کہ معاویہ کے دور میں شیعان ِ علی نے جھیلا اور اس کی شدت یہ تھی کہ ایک نسل بعد جب زیاد کا بیٹا ابن زیاد گورنر بنا تو اس نے ھانی بن عروہ (جوکہ شیعہ تھے) سے کہا تھا:


ھانی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرا باپ جب اس شھر میں آیا تھا تو اس نے تمھارے باپ اور حجر کے سوا ان شیعوں میں سے کسی کو بھی قتل کئیے بغیر نہیں چھوڑا۔پھر حجر کا جو انجام ہوا وہ بھی تمہیں معلوم ہے۔

تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 (ص) 158 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی


اسی طرح حضرت ابن عباس نے امام حسین (ع) کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ کوفہ میں شیعوں میں ھانی اور دو چار اور شیعوں کے علاوہ کوئی شیعہ نہ رہ گیا تھا، چہ جائیکہ کوفہ کی اکثریت اھل بیت کے امامی شیعوں کی ہوتی۔جب ابن عباس امام حسین (ع) کے پاس دوسری مرتبہ آئے تو انہوں نے کہا:


برادر میں چاہتا ہوں کہ صبر کروں لیکن صبر نہیں آتا۔ اس راہ میں مجھے آپ کے ہلاک ہونے کا خوف ہے۔اھل ِ عراق دغا باز ہیں۔ چنانچہ ہر گز ان کے پاس نہ جائیے۔ اس شھر میں قیام کریں کیونکہ آپ اھل حجاز کے رئیس ہیں۔ اگر عراق والے آپ کو بلاتے ہیں تو ان کو لکھیں کہ وہ پہلے اپنے دشمنان سے پیچھا چھڑائیں اور صرف اس کے بعد ان کے پاس جائیں۔ اگر آپ کو یہاں سے جانا ہی منظور ہے تو یمن کی طرف چلے جائیں کہ وہاں قلعے ہیں اور پہاڑ کی گھاٹیاں ہیں، ایک طویل و عریض ملک ہے ، وہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں اور وہاں آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔

تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 (ص) 176 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی


یہ تمام حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ معاویہ کے اس 20 سالہ طویل دور میں کوفہ کی عقیدتی امامی شیعی آبادی، جو کہ مولا علی (ع) کی شدید حامی تھی، تقریبا تمام کی تمام قتل کر دی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ کوفہ میں پھر باقی کون لوگ رہ گئے تھے؟


تو جواب یہ ہے کہ کوفہ میں صرف وہ لوگ بچے جو کہ نہ صرف خلافتِ شیخین کے قائل تھے، بلکہ خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کی خلافت کے بھی قائل تھے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے میں بھی کوفہ کی اکثریت اُن سیاسی شیعوں پر مشتمل تھی جو کہ خلافتِ شیخین کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمان ابن عفان کو بھی جائز مانتے تھے کیونکہ وہ اُسی اصولوں پر ہوئی تھی جس پر خلافت شیخین منعقد ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے جب عقیدتی امامی شیعہ جماعت بشمول مالک بن اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خلاف بولا تو اھل ِ کوفہ کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے (حوالہ : تاریخ طبری ، ج 5 ، ب 19 ، (ص) 189 مطبوعہ مصر)۔


خلفائے ثلاثہ کو ماننے والے اھل کوفہ نے مولا علی اور امام حسین کا ساتھ کیوں دیا؟


جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مولا علی (ع) کے زمانے بھی اھل کوفہ کی اکثریت خلافتِ ثلاثہ کی قائل تھی۔ اگر انہوں نے معاویہ کے خلاف مولا علی (ع) کا ساتھ دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مولا علی (ع) کی بیعت بطور خلیفہ چہارم انہی بنیادوں پر ہوئی تھی کہ جس پر حضراتِ شیخین کی بیعت عمل میں آئی تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ اھل مدینہ کے لوگ عثمان ابن عفان کی خلافت کو جائز مانتے تھے، مگر پھر بھی جنگ صفین میں مولا علی (ع) کی صفوں میں کھڑے تھے کیونکہ وجہ وہی تھی کہ اُن کے نزدیک مولا علی (ع) کو انہی اصولوں پر مدینے کے اھل حل و عقد نے خلیفہ چہارم تسلیم کیا ہے کہ جن پر اس سے پہلے خلفائے ثلاثہ کی خلافتیں منعقد ہوئی تھیں۔


امام حسین (ع) کے زمانے میں پھر اھل کوفہ نے (جو کہ اگرچہ کہ خلافتِ ثلاثہ کے قائل تھے) یزید کے خلاف امام حسین (ع) کا ساتھ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے امام حسین (ع) کا ساتھ کیوں دیا، جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امام بھی نہیں سمجھتے تھے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اھل کوفہ نے بہت سی وجوہات کی بنا پر امام حسین (ع) کو یزید پر فوقیت دی۔ ان میں سے چند وجوہات یہ ہیں:


1. اھل کوفہ عثمان ابن عفان کے دور سے ہی بنی امیہ کے گورنروں کے خلاف ہو گئے تھے۔


2. اسی وجہ سے انہوں نے عثمان ابن عفان کو خلیفہ ثالث مانتے ہوئے بھی اس کے خلاف فوجیں بھیجیں۔


3. وہ بنی امیہ کے چشم و چراغ امیرِ شام معاویہ کے خلاف رہے کیونکہ وہ جائز خلیفہ چہارم کے خلاف بغاوت کر بیٹھا۔


4. معاویہ کے حکم پر زیاد ابن سمعیہ نے اھل کوفہ پر ظلم و ستم کے دروازے کھول دیے۔ اھل کوفہ اس قتل و غارت کو نہیں بھول پائے۔


5. معاویہ نے زبردستی یزید کے لیے بیعت لے کر سنتِ شیخین کی مخالفت کی تھی اور پہلی مرتبہ خلافت کو موروثی بنا کر بادشاہت میں تبدیل کر دیا تھا، جبکہ یزید ابن معاویہ شرابی انسان تھا اور بہت سی بُری خصلتوں میں مبتلا تھا۔


یزید کے مقابلے میں امام حسین (ع) کی جیسی نیک شخصیت تھی کہ جن کے پاکباز ہونے پر سب گواہی دیتے تھے۔ تو یہ سب وہ وجوہات تھیں کہ اھل کوفہ نے امام حسین (ع) کو اللہ کا منتخب کردہ امام نہیں مانتے ہوئے بھی یزید کے مقابلے میں انہیں ترجیح دی، اور انہیں خط لکھے کہ وہ کوفہ آ کر انہیں بنی امیہ کے ظلم و ستم سے نجات دلوائیں۔


معاویہ کے دور میں کوفہ میں شیعانِ معاویہ کی جماعت


معاویہ کے 20 سالہ طویل دورِ حکومت میں کوفہ میں ایک اور جو تبدیلی آئی، وہ یہ تھی کہ یہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گیا جو کہ شیعانِ معاویہ پر مشتمل تھا۔ یہ گروہ معاویہ کے حکم سے منبرِ نبی سے اھل بیت پر سب و شتم کرتا تھا۔اس گروہ کی موجودگی کا سراغ اس خط سے بھی ملتا ہے جو کہ جناب مسلم بن عقیل کی آمد پر ان شیعانِ معاویہ (جو کہ اب شیعان ِ یزید ہوچکے تھے) نے یزید کو لکھا تھا:


اما بعد فان مسلم بن عقیل قد قدم الکوفۃ فبایعۃ الشیعۃ اللحسین بن علی فان کان لک بالکوفۃ حافۃ فابعث الیھا رجلا قو یاینفذ امرک و یعمل مثل عملک فی عدوک فان لانعمان بن بشیر رجل ضعیف او ھو یتضعف


مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں اور شیعوں نے اُن کے ہاتھ پر حسین بن علی کی بیعت کی ہے۔ اگر آپ کو کوفہ میں اپنی سلطنت قائم رکھنا ہے تو ایک طاقتور شخص کو یہاں مقرر کیجئے۔ جو آپ کے حکم کو نافذ کرے اور دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو آپ خود اگر ہوتے تو کرتے۔ اس لئے کہ نعمان بن بشیر (جو کوفہ کا حاکم ہے ) وہ فطرتاً کمزور ہے۔ یا کسی وجہ سے کمزوری کر رہا ہے۔


اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ہیں:


1. عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ

2. عمارہ بن عقبہ
3. عمر بن سعد بن ابی وقاص

یزید نے اس خط کے ملتے ہی ایک فرمان ابن زیاد (جو زیاد ابن سمعیہ کا بیٹا تھا) کے نام لکھا جسکی عبارت قابلِ دید ہے:


ما بعد فانۃ کتب الی شیعی من اھل الکوفۃ بخیر وننی ان ابن عقیل بالکوفۃ تجمع الجموع لشق عصا المسلمین فرحین تفراء الخ

میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اور مسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو (طبری، جلد 6 صفحہ 200)

محترم قارئین! پہچان تو لیا ہو گا یہ عمر ابن سعد بن ابی وقاص کون ہے جو اس خط کے لکھنے والوں میں ہے؟ بے شک یہ وہی سپہ سالار ہے جو حسین بن علی کے قتل کے لئے بھیجا گیا تھا۔ جس نے سب سے پہلا تیر لشکرِ حسین کی طرف چلایا تھا (طبری جلد 6 صفحہ 245)۔ اور اسکا شیعانِ یزید میں سے ہونا ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جسے سوائے ناصبی آنکھوں کے ہر دوسری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ چنانچہ، امام حسین (ع) کے زمانے تک کوفہ میں جو مختلف گروہ تھے، انکی تفصیل یوں ہوئی:


1. شیعانِ عثمان (بنی امیہ)، جو کھل کر اھل بیت پر سب و شتم کرتے تھے اور یزید کی حکومت کے لیے مستقل بطور جاسوس کردار ادا کرتے تھے۔ یہ پہلے تین خلفاء کی خلافت کے قائل تھے جبکہ مولا علی (ع) کی خلافت کو انہوں تسلیم نہیں کیا۔ ابن تیمیہ لکھتا ہے:

عثمانی شیعہ علی کو ممبروں سے کھل کے سب و شتم کیا کرتے تھے
منہاج السنہ ، ج 1 (ص) 178

کوفہ میں موجود سرکاری فوج (جس کو معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد روانہ کیا تھا) کا تعلق بھی اسی گروہ سے تھا۔ یعنی یہ سرکاری فوج بنیادی طور پر شام سے لا کر یہاں آباد کی گئی تھی۔


2. عام اھل کوفہ، جنہیں سیاسی معنوں میں (شیعانِ عثمان کی رد میں) شیعانِ علی کہا جاتا تھا۔ یہ عقیدتی طور پر پہلے تین خلفاء کی بجائے چار خلفاء کے ماننے والے تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اکثریت میں تھا۔


3. اھل بیت علیھم السلام کا خصوصی شیعانِ خاصہ کا گروہ، جو عقیدتی امامی شیعہ تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اقلیت میں رہ گیا تھا۔


قارئین کرام، کربلا کے واقعات کو سمجھنے کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ آپ کوفہ میں موجود ان تین گروہوں سے اچھی طرح تعارف حاصل کر لیں۔


قاضی نور اللہ شوستری کا بیان کہ اھل کوفہ کی اکثریت شیعہ تھی


آخر میں ہم ایک ناصبی بہانے کو بھی نقل کرتے چلیں۔ ناصبی حضرات شیعہ عالم ِ دین قاضی نور اللہ شوستری کی ایک عبارت کو غلط انداز میں پیش کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اھل کوفہ خلافتِ شیخین کے ماننے والے نہیں بلکہ امامی شیعہ تھے۔ اس سلسلے میں وہ جو عبارت پیش کرتے ہیں، وہ یہ ہے:


Nawasib state:


قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین کے صفحہ 25 میں تصریح کر دی

"اھل کوفہ کے شیعہ ہونے کے لیے کسیدلیل کی حاجت نہیں۔ کوفیوں کا سنی ہونا خلافِ اصل ہے جو محتاج دلیل ہے، اگرچہ ابوحنیفہ کوفی تھے۔"


پہلا جواب : قاضی صاحب کی یہ عبارت کربلا کے زمانے کی نہیں ہے۔ بلکہ ابو حنیفہ کوفی کا ذکر کر کے قاضی صاحب نے وہ وقت بتادیا کہ جس کا وہ تذکرہ کر رہے ہیں ٌ(یعنی قاضی صاحب واقعہ کربلا سن 61 ہجری کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ابو حنیفہ کوفی کے عروج کے دور کی بات کر رہے ہیں۔ اور ابو حنیفہ تو واقعہ کربلا کے وقت تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا)۔


دوسرا جواب: ابو حنیفہ کے زمانے کے متعلق بھی یہ قاضی صاحب کی ذاتی رائے ہے۔ لہذا ناصبی حضرات کا یہ عذر اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا جبتک وہ اس کی حمایت میں کوئی تاریخی روایت نہ پیش کریں۔


تیسرا جواب: ہم نے اھل سنت کی تاریخی کتب سے کئی روایات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ کربلا کے زمانے میں کوفہ میں الشیعہ خاصہ یعنی عقیدتی امامی شیعہ کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔ باقیوں کو زیاد ابن سمعیہ نے اپنی گورنری کے دور میں چن چن کر قتل کر دیا تھا۔


لہذا نجس ناصبیوں کا قاضی نور اللہ شوستری کے اس قول واحد کو توڑ مروڑ کر عذر بیانی کرنا قابل قبول نہیں ہو سکتا، بلکہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ بےغیرت ناصبی کیسے عام اھل سنت مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔


زید کی بیعت کی ابتدا


ذیل میں ہم مختصراً یزید کی بیعت کی ابتدا کا ذکر کریں گے تاکہ انصاف پسند قارئین خود ہی اندازہ لگا لیں کہ یزید کو کس قدر نیک نیتی کے ساتھ خلیفہ بنانے کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔


کیا یزید اسلامی اصولوں کی پاسداری کے لیے ولی عہد مقرر کیا گیا؟


نہیں، یزید کی ولی عہدی کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ مغیرہ بن شعبہ نے اپنی گورنر کی کرسی بچانے کے لیے یزید کا نام خلافت کے لیے پیش کیا۔


ابن جریر نے شعبی کے طریق سے روایت کی ہے کہ مغیرہ بن شعبہ امیر معاویہ کے پاس آیا اور کوفہ کی امارت سے بریت کا اظہار کیا۔ اس پر معاویہ نے اُس کی کبر سنی اور کمزوری کے باعث اُسے بری کر دیا اور سعید بن العاص کو کوفہ کا امیر مقرر کیا۔ جب مغیرہ بن شعبہ کو اس کی اطلاع ملی تو اُسے بہت پشیمانی ہوئی اور اُس نے یزید بن معاویہ کے پاس آ کر اُسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باپ سے ولی عہد ہونے کا مطالبہ کرے۔ پس یزید نے اپنے باپ سے اسکا مطالبہ کیا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ یہ مشورہ تجھے کس نے دیا ہے؟ یزید نے کہا کہ مغیرہ بن شعبہ نے۔ پس معاویہ کو مغیرہ بن شعبہ کی یہ بات پسند آئی اور اُس نے مغیرہ کو کوفہ کی عملداری پر واپس بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہ کوفہ جا کر یزید کی ولیعہدی منوانے کی کوششیں شروع کرے۔ معاویہ نے زیاد کو بھی خط لکھ کر اس کے متعلق مشورہ لیا، مگر زیاد نے اس بات کو پسند نہیں کیا کیونکہ وہ یزید کے کھلنڈرے پن اور شکار اور کھیل کی طرف متوجہ ہونے سے واقف تھا۔

البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 870 (نفیس بک اکیڈمی، کراچی)۔

اس بیعت کی ابتدا رشوت سے ھوئی


ابن کثیر لکھتے ھیں:


زبیر بن بکار نے بیان کیا ہے کہ ابراہیم بن محمد بن عبد العزیز الزہری نے اپنے باپ سے اپنے دادا کے حوالے سے مجھ سے بیان کیا کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کے انکار کے بعد معاویہ نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (جناب عائشہ کے بھائی اور جناب ابو بکر کے بیٹے) کی طرف ایک لاکھ درھم بھیجے تو عبد الرحمن بن ابی بکر نے اس رقم کو واپس کر دیا اور ان کے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ کیا میں اپنے دین کو اپنی دنیا کے بدلے فروخت کر دوں؟

البدایہ و النہایہ، ج 8 ص 891 (نفیس بک اکیڈمی، کراچی)۔

اور علامہ ابن حجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں:


معاویہ نے عبداللہ ابن عمر سے مطالبہ کیا کہ وہ یزید کی بیعت کریں۔ پھر معاویہ نے 100000 درہم عبداللہ ابن عمر کو بھیجے، مگر عبداللہ ابن عمر نے انہیں لینے سے انکار کر دیا۔

فتح الباری، جلد 13، صفحہ 80

نوٹ: ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری کی آغاز میں لکھا ہے کہ وہ اس کتاب میں جو احادیث درج کریں گے وہ صحیح ہیں، یا پھر کم از کم حسن کے درجے کی ہیں۔


پھر یہ بیعت اپنے مذموم ارادے پورے کرنےکے لیے رشوت سے آہستہ آہستہ ڈرانے دھمکانے کی طرف بڑھی۔ حافظ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں:


پانچ افراد ایسے تھے جنہوں نے یزید کی بیعت نہ کی۔

1۔ عبدالرحمن بن ابو بکر
2۔ عبداللہ ابن عمر
3۔ عبداللہ ابن زبیر
4۔ حسین بن علی
5۔ ابن عباس
اس پر معاویہ بذاتِ خود مدینہ گیا اور ان پانچوں کو طلب کیا اور ڈرایا دھمکایا۔
البدایہ و النہایہ، جلد 7، صفحہ 79، سن 57 ہجری کے واقعات

اور یوں ہی تاریخ کامل میں ذکر ہے:


پانچ لوگوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا۔ اس پر معاویہ جناب عائشہ کے پاس آیا اور کہا: "اگر یہ پانچوں یزید کی بیعت نہیں کرتے تو میں انہیں قتل کر دوں گا۔" اس پر جناب عائشہ نے کہا: "میں نے بھی یہ سنا ہے کہ تم خلیفہ زادوں کو یزید کی بیعت کے لیے ڈرا دھمکا رہے ہو۔"

تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 455 ، ذکر بیعتِ یزید

اور تاریخ طبری میں درج ہے:


عبدالرحمن بن ابی بکر یزید کی بیعت سے گریز کرتے رہے۔ اس پر معاویہ نے اسے طلب کر کے کہا کہ کیا تم میں جرات ہے کہ میرے خلاف کھڑے ہو؟ اللہ کی قسم مٰیں تمہیں قتل کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ اس پر عبدالرحمن نے جواب دیا: "مجھے قتل کر کے تم اُن لوگوں میں سے ہو جاؤ گے جن پر اللہ اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی لعنتیں بھیجتا ہے۔"

تاریخ طبری، جلد 7، صفحہ 177، سن 56 کے حالات کے ذکر میں۔

معاویہ کی موت کے بعد یزید کے بیعت لینے کے طریقے


معتبر تاریخی حوالے اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ امام حُسین (ع) کو کوفہ آنے کی دعوت ملنے سے قبل ہی یزید (لعین) نے امام حُسین (ع) سے بیعت حاصل کرنے کے تمام طریقے اختیار کرنے کی پوری تیاری کر لی تھی۔ معاویہ کی موت کے بعد یزید (لعین) نے مدینہ میں اپنے گورنر ولید بن عتبہ کو لکھا:


حُسین ، عبداللہ ابن عمر ، اور عبد اللہ ابن زبیر کو بیعت کے لئے سختی سے پکڑ لو اور اس میں نرمی نہیں کرنا حتیٰ کہ وہ بیعت کر لیں

البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1004 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی

اس سلسلے میں ولید بن عتبہ نے مروان کو بلایا اور اُس سے مشورہ مانگا جس پر مروان نے کہا:


قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کا علم ہو آپ اُنہیں بیعت کرنے کی دعوت دیں اور اگر انکار کریں تو قتل کردیں

البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1004 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی

ان سب واقعات سے قارئین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یزید کی ولیعہدی میں کسقدر نیک نیتی شامل تھی، اور یزید اور اُسکے شیعہ کس طرح ہر حال میں یزید کی بیعت کو پورا کرنے کے لیے مخالفین کا خون بہانا چاہ رہے تھے۔



باب نمبر 5



خلافتِ شیخین تسلیم کرنےوالے کوفی شیعوں کے امام حسین کے نام خطوط


ہم نے پچھلے ابواب میں ثابت کیا تھا کہ معاویہ کے 20 سالہ طویل حکومتی عرصہ کے بعد کوفہ میں تین 3 گروہ آباد تھے۔


1. شیعانِ عثمان (بنی امیہ)، جو کھل کر اھل بیت پر سب و شتم کرتے تھے اور یزید کی حکومت کے لیے مستقل بطور جاسوس کردار ادا کرتے تھے۔ یہ پہلے تین خلفاء کی خلافت کے قائل تھے (جبکہ مولا علی (ع) کی خلافت کو انہوں تسلیم نہیں کیا)۔ ابن تیمیہ لکھتا ہے:


عثمانی شیعہ علی کو ممبروں سے کھل کے سب و شتم کیا کرتے تھے

منہاج السنہ ، ج 1 ص 178

2. عام اھل کوفہ، جنہیں سیاسی معنوں میں [شیعانِ عثمان کی رد میں] شیعانِ علی کہا جاتا تھا۔ یہ عقیدتی طور پر شیعانِ عثمان کے برخلاف، پہلے تین خلفاء کی بجائے چار خلفاء کے ماننے والے تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے زیادہ اکثریت میں تھا۔


3. اھل بیت علیھم السلام کا خصوصی شیعانِ خاصہ کا گروہ، جو عقیدتی امامی شیعہ تھے۔ یہ گروہ کوفہ میں سب سے کم اقلیت میں رہ گیا تھا۔


عام اھل کوفہ کا بنی امیہ کے مظالم سے تنگ ہونا


عام اھل کوفہ عثمان ابن عفان کے دور سے ہی بنی امیہ کے حکام کے مظالم سے تنگ تھے، اور بار بار انکی شکایت عثمان ابن عفان سے کرتے تھے، مگر عثمان نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ مثلاً عثمان خلیفہ بننے کے بعد کوفہ میں موجود گورنر سعد بن ابی وقاص کو جو کبار صحابہ میں سے تھے، معزول کر دیا اور اُنکی جگہ ولید بن عقبہ جسکا تعلق بنی امیہ سے تھا، کو کوفہ کا عامل مقرر کیا۔ یہ ولید بن عقبہ فاسق و فاجر شخص تھا اور نشے کی حالت میں نماز پڑھانے پہنچ جاتا تھا۔ ایک صبح ایسے ہی نشے کی حالت میں فجر کی نماز دو کی بجائے چار رکعت پڑھا دی۔ مختصرا ً یہ کہ عثمان کے دور سے ہی اھل کوفہ بنی امیہ کے حکام کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ پھر جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اُس نے زیاد بن سمعیہ کے ہاتھوں کوفہ میں لوگوں کا قتل عام کروایا۔ اس سے لوگ بظاھر خاموش تو ہو گئے لیکن اُن کے دلوں میں بنی امیہ کے خلاف عداوت کی آگ اور بھڑک اٹھی۔ پھر جب معاویہ نے اپنے مرنے سے قبل یزید جیسے فاسق و فاجر اور شرابی کبابی بیٹے کو خلافت کے لیے نامزد کر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے کی بدعت کی، تو اس پر یہ اھل کوفہ اور زیادہ بھڑک اٹھے۔


اھل بیت کے الشیعہ خاصہ کا اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش



جب اھل کوفہ کے شیعہِ خاصہ (یعنی عقیدتی /امامی شیعہ جو کہ اقلیت میں تھے) تک یہ خبریں پہنچیں کہ امام حسین (ع) نے یزید کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اسی مقصد کے لیے مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ معظمہ آ گئے ہیں اور یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو، یزید کی بیعت نہ کریں گے، تو جماعت کو جو بیس برس کی طویل مدت تک طرح طرح کے صبر آزما مظالم برداشت کرتے ہوئے عاجز آ چکی تھی اور ہر وقت وہ جناب حسین (ع) کی جانب سے نصرت کی منتظر تھی، اپنی مایوسیوں کی مدت سے چھائی ہوئی تاریک گھٹاؤں میں امید کی شعاعیں نظر آنے لگیں اور ان کے ضمیر نے آواز دی کہ اس موقع سے بہتر کوئی موقعہ نہ ملے گا۔ اور اس وقت کا سکوت اپنے ہاتھ سے خود کشی کے مترادف ہو گا۔ یہ سوچ کر یہ جماعت سلیمان بن صرد صحابی رسول ص کے گھر میں جمع ہوئے۔ سن رسیدہ اور تجربہ کار سلیمان نے، جو رسالت مآب (ص) کی آنکھیں دیکھے ہوئے اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے ساتھ لڑائیوں میں شریک رہ چکے تھے، مجمع کو ان الفاظ سے مخاطب کیا:


معاویہ کا انتقال ہوا اور حیسن نے یزید کی بیعت سے انکار کیا ہے۔ اور وہ مکہ معظمہ چلے گئے ہیں۔ آپ لوگ ان کے اور ان کے پدر بذرگوار کے شیعہ ہیں۔ اگر آپ اس بات کا یقین رکھتے ہوں کہ ان کی نصرت و مدد میں اور ان کے دشمنوں سے جنگ میں کوتاہی نہ ہو گی تو بسم اللہ، ان کو خط لکھیے اور اگر سستی و کمزوری کا خوف ہو تو خدا کے واسطے ایک شخص کو فریب دے کر اس کی جان کو خطرہ میں نہ ڈالئے۔


ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ سلیمان وقتی جوش و جذبہ کو بھڑکا کر اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ وہ مجمع کو موقع کی نزاکت اور آئیندہ کے خطرات کے متعلق صحیح تصویر دکھانا چاہتے تھے۔ یہ امر فطری ہے کہ جذبات کی برانگیختگی کے موقع پر انسان کو اپنی طاقت کا اندازہ مشکل سے ہوتا ہے اور وہ اپنی طاقت کا اندازہ کرنے میں غلطی کر جاتا ہے۔ مگر مجمع کے اندر ان کے بڑھتے ہوئے جوش میں سلیمان کے الفاظ نے وہ کام کیا جو پانی کا چھینٹا اٹھتے ہوئے آگ کے شعلوں میں۔ایک مرتبہ سب بول اٹھے کہ نہیں نہیں، ہم یقیناً ان کے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور اپنے آپکو حضرت کے قدموں پر نثار کرینگے۔


یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان الشیعہ خاصہ کی یہ جمعیت تعداد میں کتنی تھی؟


اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی میدان یا عالی شان قصرِ امارت کے وسیع صحن کی رہینِ ِ منت نہ تھی، بلکہ وہ عربی طرز کے مختصر مکانات میں سے، جن کے نمونے آج تک عربستان میں نظر آ جاتے ہیں، ایک مکان یعنی سلیمان بن صرد کے گھر میں مجتمع ہو گئی تھی۔


مذکورہ بالا سوال و جواب اور اس کے الفاظ میں بے شک صداقت کا جوہر نظر آ رہا ہے، لیکن وہ آئندہ ہونے والے ناگہانی انقلابات کا کہاں تک مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس کا فیصلہ مستقبل ہی کے ہاتھ ہے۔ سلیمان بن صرد کی حجت تمام ہو چکی تھی۔ امام حسین (ع) کو اس عنوان سے خط لکھا گیا:


بسم اللہ الرحمن الرحیم

لحسین بن علی (ع) سلیمان صرد و المسیب بن نختہ و رفاعۃ بن شداد و حبیب بن مظاھر و شیعۃ من المومنین و المسلمین من اھل الکوفہ

اس خط میں تو یہ بات بالکل صاف کر دی گئی کہ کوفہ میں کئی طرح کے گروہ آباد تھے اور یہ خط جمیع اھل کوفہ کی طرف سے نہیں بلکہ صرف کوفہ میں موجود مومنین اور مسلمین کے خاص شیعوں کی طرف سے تھا۔ اس کے بعد معاویہ کے انتقال پر اظہارِ مسرت کیا گیا تھا اور لکھا تھا کہ:


ہمارے سر پر کوئی قائد نہیں (جو جنگ میں اُنکی قیادت کر سکے)۔ لہذا آپ تشریف لائیےتاکہ آپکی وجہ سے ہم حق کی نصرت پر جمع ہو سکیں اور نعمان بن بشیر دار الامارۃ میں موجود ہے۔ ہم اس کے ساتھ نمازِ جمعہ میں شریک نہیں ہوتے اور نہ عیدگاہ جاتے ہیں۔ اگر ہم کو خبر معلوم ہو جائے گی کہ آپ تشریف لا رہے ہیں تو ہم اس کو یہاں سے نکال کر شام جانے پر مجبور کر دیں گے۔ والسلام۔


اس خط کو عبد اللہ بن ہمدانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ روانہ کیا گیا اور یہ سب سے پہلا خط ہے جو الشیعہ خاصہ کی طرف سے امام کو مکہ معظمہ میں دسویں ماہ رمضان کو ملا۔


الشیعہ خاصہ کی تحریک پر اھل کوفہ کے عامہ کے امام حسین کو خطوط


اب الشیعہ خاصہ نے اپنی تحریک کو اھل کوفہ کی عامہ تک پہنچانا شروع کیا۔ اھل کوفہ پہلے ہی بنی امیہ کے خلاف بھرے بیٹھے تھے، لہذا چنگاری دکھاتے ہی آگ بھڑک اٹھی اور الشیعہ خاصہ کے ساتھ ساتھ اھل کوفہ کے عامہ کی طرف سے بھی دھڑا دھڑ خطوط امام حسین (ع) کی خدمت میں جانے لگے، اور دو ہی دن میں 53 عرضداشتیں تیار ہو گئیں۔ یہ خطوط ایک دو تین، یا چار آدمیوں کے دستخط سے تھے اور یہ سب خطوط قیس بن مسہر اور عبدالرحمن بن عبد اللہ اور عمارہ بن عبید سلولی کے ہاتھ روانہ کئے گئے۔ جب الشیعہ خاصہ نے کوفہ کے عامہ میں تحریک کا یہ زور دیکھا، تو انہیں یقین پیدا ہوا کہ رائے عامہ یزید کے خلاف ہے اور اور اس لئے کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔ لیکن درحقیقت یہ فریبِ نظر تھا۔ عام خلقت کو اس تحریک سے ہمدردی ایسی ہی تھی جیسے آندھی کے رخ پر اڑتے ہوئے پرندہ کو۔اس غلط اندیشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو پہلے خط میں “لعل اللہ ان یجمعنا بک” کے الفاظ بیم و رجا اور اجتماع و اتفاق کا خیال توقع کی صورت میں ظاہر کر رہی تھیں۔ اور یا اب آخری خط پُر زور الفاظ میں لکھا جاتا ہے جو مضبوط یقین اور کامل اعتماد کا مظہر ہے۔


تشریف لائیے جلد اس لئے کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں اور آپ کے سوا کسی اور کو سردار تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ لہذا جلدی کیجئے جلدی۔ والسلام۔


اس خط کو ہانی بن عروہ اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ذریعہ روانہ کیا گیا تھا۔


مفاد پرستوں کے امام حسین (ع) کو خطوط


جیسا ہم نے اوپر عرض کیا کہ الشیعہ خاصہ کی تحریک پر اھل کوفہ کے عامہ بھی بنی امیہ کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی امام حسین ع کو نصرت کے خطوط لکھے۔ ایسے میں چند ایسے مفاد پرست لوگ بھی تھے جنکا دین و ایمان صرف دنیا داری تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کوفہ میں امام حسین ع کی نصرت کے لیے لوگ جوق در جوق کھڑے ہو رہے ہیں، تو تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے بھی امام حسین ع کو ایک خط لکھا، جسکے مضمون میں سوائے دنیاوی لذتوں کے اور کسی چیز کا ذکر نہ تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا:


کھیتیاں لہلہا رہی ہیں اور میوے درختوں میں رسیدہ ہیں اور تالاب لبریز ہیں۔ پس جب آپ چاہیں تشریف لائیں۔ ایک ایسے لشکر کےجانب جو آپ کے لئے آراستہ موجود ہے۔


اس پر سات آدمیوں کے دستخط ہیں۔ شیث بن ربعی، حجار بن الجبر ، یزید بن حارث، یزید بن رویم، عذرۃ بن قیس، عمرو بن الحجاج زبیدی، محمد بن عمری تمیمی۔ ان واقعات کے لئے ملاحظہ ہو طبری، جلد 6، صفحہ 197۔


ذرا پہلے خطوط اور اس خط میں عنوان کی حیثیت سے موازنہ کریں کہ اُن خطوط میں سے ہر خط میں برابر اپنے تشیع و ایمان کا حوالہ ہے۔ معاویہ و آلِ معاویہ کے غصبِ خلافت کا تذکرہ ہے۔ حسین بن علی کے استحقاقِ امامت کا اعتراف ہے، لیکن اس خط میں یہ کچھ بھی نہیں بلکہ صرف دنیاوی لذتوں و فوائد کا ذکر ہے۔آخر حیسن ع کو لہلہاتی کھیتیوں سے کیا کام اور رسیدہ میوؤں سے کیا غرض اور لبریز تالابوں سے کیا مطلب؟ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ وہ ہوتا ہے کہ جو جہاں کی ہوا دیکھتا ہے، وہیں ہو لیتا ہے۔ ان خطوط کے مضامین میں جو فرق تھا، وہی فرق میدانِ جنگ میں بھی ظاہر ہوا، جسکا ذکر ہم آگے کریں گے اور یہ بھی بیان کرینگے کہ ان خط بھیجنے والوں میں شبیث بن ربعی خلافتِ شیخین کو ماننے والا تھا اور اھل سنت کی حدیث کی کتابوں کا مشہور و مستند راوی بھی ہے۔


الشیعہ خاصہ کے نام سے خطوط لکھنے والوں کا کربلا میں شہید ہونا


الشیعہ خاصہ کی طرف سے جن لوگوں نے خطوط لکھے، اُن میں سے ایک شخص کی بھی موجودگی واقعہ کربلا میں امام حسین کے مقابلہ میں نہیں پائی جاتی ۔بلکہ ان میں سے:


1. حبیب ابن مظاھر (ع)نے کربلا میں امام حسین کے قدموں پر جانبازی کے ساتھ دم توڑ کر ہمیشہ کے لئے سرخروئی حاصل کی۔


2. اور ان اشخاص میں سے جو خطوط کے لے جانے والے تھے، سعید بن عبداللہ حنفی نے اس طرح جان نثار کی جس کی نظیر کسی شہید کے ہاں نہیں ملتی۔ ظہر کے بعد جب لڑائی نے زور پکڑا اور خونخوار دشمنوں کا لشکر امام حسین کے نزدیک پہنچ گیا اس وقت یہ جان باز امام کے سامنے کھڑا ہو گیا اور جو تیر حسین کی طرف آتا تھا اس کو اپنے سینہ پر روکتا تھا۔ آخر اتنے تیر پڑے کہ وہ جان نثار مردہ ہو کر زمین پر گر پڑا (طبری صفحہ 253)


3. اور عبد الرحمن بن عبد اللہ روزِ عاشور امام حسین سے اجازت لے کر میدانِ قتال میں آئے اور رجز پڑھ کر جنگ بہادری سے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوئے۔(ابصار العین صفحہ 78)


4. اور قیس بن مسہر نے اپنی زندگی کے آخری نفس تک جس صداقت اور استقلال کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کیا اس کا تذکرہ صفحہ تاریخ پر زریں حرفوں میں ہمیشہ ثبت رہے گا۔

اس وقت کہ جب امام حسین نے بطن الرمہ سے اھل ِ کوفہ کے نام خط دے کر ان کو روانہ کیا اور حسین بن تمیم کے ہاتھوں جو قادسیہ میں ناکہ بندی پر مقرر تھا یہ گرفتار ہو کر ابن زیاد کے پاس لائے گئے اور اس نے حکم دیا کہ قصرِ داررالامارہ پر جا کر حسین بن علی کے بارے میں کلماتِ نازیبا استعمال کریں۔ یہ موقع تھا جس کو قیس نے بہترین موقع تبلیغ کا سمجھا اور بالائے قصر جا کر بلند آواز سے کہا:

سب کو معلوم ہونا چاہئیے کہ حسین فرزندِ علی و فاطمہ اس وقت خلقِ خدا میں سب سے افضل و بہتر ہیں اور وہ مقام حاجر تک پہنچ چکے ہیں۔ میں انہی کا بھیجا ہوا ہوں۔ اب تم سب ان کی آواز پر لبیک کہو


یہ الفاظ ختم ہوئے ہی تھے کہ ابنِ زیاد کے حکم سے انکو قصرِ دارالامرہ کی بالائی سطح سے نیچے گرا دیا گیا اور اس شہید راہِ خدا کی ہڈیاں سرما سا ہو گئیں (طبری صفحہ 224)۔


یہ کوفہ کے وہ الشیعہ خاصہ تھے، جنہوں نے امام حسین (ع) پر اپنا خون بہا دیا۔ برخلاف اس کے آخری خط جس پر سات آدمیوں کے دستخط تھے ان میں سے پانچ شخص شیث بن ربعی اور حجار بن الجبر اور غرہ بن قیس اور عمرو بن حجاج زبیدی اور یزید بن حارث مسلماً واقعہ کربلا میں موجود تھے اور قتلِ امام حسین میں شریک تھے اور بقیہ دو کے نام اگرچہ کسی موقع پر نظر نہیں آتے لیکن قرائن کی رو سے قرینِ ِقیاس ہے کہ انہوں نے بھی قتل ِحسین میں اپنے ساتھیوں کا ساتھ دیا تھا۔ یہ عامہ میں سے اُسی مفاد پرستوں کا گروہ ہے جنہوں نے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے دنیاوی لذتیں حاصل کرنے کے لیے امام حسین (ع) کو خط لکھا تھا لیکن جب دیکھا کہ فوجِ ابن زیاد غالب آ رہی ہے تو یہی لوگ تلواریں اٹھا کے امام حسین (ع) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔


الشیعہ خاصہ کی قتل ِحسین سے براءت


مکہ سے واپسی پر امام حسین (ع) کو اھل ِ کوفہ کے خطوط موصول ہوئے ۔ اس پر امام (ع) نے مسلم بن عقیل (ع) کو وہاں جانے اور وہاں کی درست صورتحال کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔ جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو کوفہ میں یزید کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی، اور اقلیت میں موجود الشیعہ خاصہ کے ساتھ ساتھ اھل کوفہ کے اکثریتی عامہ نے بھی بڑھ چڑھ کر آپکا استقبال کیا اور جلد ہی دس ہزار کے قریب کوفیوں نے آپ کو اپنی امداد کا یقین دلایا۔ اُس وقت نعمان بن بشیر کوفہ کا حاکم تھا اور صلح جو قسم کا آدمی تھا۔ اس لیے نعمان بن بشیر نےمسلم بن عقیل سے زیادہ تعرض نہ کیا، سوائے ایک خطبہ دینے کے، جس میں اُس نے لوگوں کو فتنہ سے خبردار کیا اور یزید (لعین) کو دی گئی بیعت کا وفادار رہنے پر زور دیا۔ (البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 10022 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی )


عین اسی موقع پر کوفہ سے ایک خط یزید کے پاس آتا ہے، جسکی عبارت یہ ہے:


اما بعد فان مسلم بن عقیل قد قدم الکوفۃ فبایعۃ الشیعۃ اللحسین بن علی فان کان لک بالکوفۃ حافۃ فابعث الیھا رجلا قو یاینفذ امرک و یعمل مثل عملک فی عدوک فان لانعمان بن بشیر رجل ضعیف او ھو یتضعف"


مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں اور شیعوں نے اُن کے ہاتھ پر حسین بن علی کی بیعت کی ہے۔ اگر آپ کو کوفہ میں اپنی سلطنت قائم رکھنا ہے تو ایک طاقتور شخص کو یہاں مقرر کیجئے۔ جو آپ کے حکم کو نافذ کرے اور دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو آپ خود اگر ہوتے تو کرتے۔ اس لئے کہ نعمان بن بشیر (جو کوفہ کا حاکم ہے ) وہ فطرتاً کمزور ہے۔ یا کسی وجہ سے کمزوری کر رہا ہے۔


اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ہیں:

1. عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ
2. عمارہ بن عقبہ
3. عمر بن سعد بن ابی وقاص

محترم قارئین! کیا آپ نے ان خط لکھنے والوں میں عمر بن سعد بن ابی وقاص کے نام پر غور کیا؟ بے شک یہ وہی سپہ سالار ہے جو حسین بن علی (ع) کے قتل کے لئے بھیجا گیا تھا اور اسی نے سب سے پہلا تیر لشکرِ حسین کی طرف چلایا تھا (طبری جلد 6 صفحہ 245) اور پھر یہ اھل ِ سنت کی حدیث کی کتابوں کا ثقہ راوی بھی ہے۔


اس کے یہ الفاظ کہ "فبایعۃ الشیعۃ للحسین بن علی" کہ شیعہ جماعت نے مسلم کے ہاتھ پر حسین کی بیعت کر لی ہے، صاف بتلاتے ہیں کہ اس عمر بن سعد بن ابی وقاص کو جماعتِ شیعہ (خاصہ) سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح پھر یزید کی یہ تحریر کہ "کتب الی شیعی من اھل الکوفہ" مجھ کو میرے شیعوں نے کوفہ سے لکھا ہے" بتلا رہی ہے کہ یہ شخص یزید کا شیعہ اور اس کی خلافت کو تسلیم کرنے والی جماعت سے تھا۔ اب اس کا فیصلہ ہمارے مضمون کی گذشتہ قسط دیکھ چکنے والے ناظرین کے ہاتھ ہے کہ آیا وہ اب بھی ناصبی حضرات کی اس دعویٰ کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) کو قتل کرنے والے الشیعہ خاصہ ہی تھے یا نہیں۔

یزید نے اس خط کو دیکھتے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک فرمان عبید اللہ ابن زیاد کے نام لکھا۔ یہ عبید اللہ بیٹا تھا اُسی شقی القلب زیاد بن سمعیہ کا، جسنے معاویہ کے دورِ حکومت میں کوفہ کی شیعی آبادی کا قتل عام کیا تھا، اور معاویہ کے زمانے سے ہی دمشق سے سرکاری فوجیں آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئی تھیں۔ اسکی فرمان کی عبارت قابلِ دید ہے:

ما بعد فانۃ کتب الی شیعی من اھل الکوفۃ بخیر وننی ان ابن عقیل بالکوفۃ تجمع الجموع لشق عصا المسلمین فرحین تفراء الخ


میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اور مسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو

طبری، جلد 6 صفحہ 200۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ناصبی حضرات کی نزدیک یہ ابن زیاد بھی شیعانِ علی ہے، جبکہ ہر انصاف پسند نگاہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ عبید اللہ ابن زیاد خلافتِ شیخین کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمان کا بھی ماننے والا تھا اسی بنا پر اھل ِ سنت کی کتابوں میں اس سے احادیث بھی روایت کی گئی ہیں۔


ناصبی حضرات کا دعویٰ کہ ابن زیاد شیعانِ معاویہ نہیں بلکہ الشیعہ خاصہ میں سے تھا


یہ ناصبی دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے اور ناصبی حضرات کو یہ پروپیگنڈا اس لیے کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اصل قاتلانِ حسین کے چہروں پر نقاب ڈال سکیں کیونکہ اگر وہ مکروہ چہرے ظاہر ہوگئے تو مذھب ِ اھل ِ سنت کے پیروکار اپنے ہی مذھب کے ان معتبر علماء کے متعلق سوالات کا انبار لگادیں گے جنہوں نے اس مذھب کی بنیادی کتابوں میں نہ صرف ان ملعون قاتلوں سے روایات نقل کیں بلکہ انہیں ثقہ اور دین دار بھی قرار دیا۔ اور ابن زیاد کے متعلق یزید نے اپنے ان اشعار میں اظہارِ خیال کیا ہے:


اسقنی شرمیۃ تروی مشاشی ثم قم واسق مثلھا ابن زیاد

ہاں اے ساقیِ مہوش، مجھکو ایک ایسا ساغر پلا دے جو میرے جسم کے ہر جوڑ بند کو سیراب کر دے۔ پھر کھڑے ہو کر ایسا ہی ایک جام ابن زیاد کو پلا۔

صاحب لاردوالامنۃ و التسد ید منی و مغنمی و جھادی

وہ کہ جو خالص دوست اور امانتدار اور میری تائید کرنے والا اور میرا سرمایہ زندگی اور جنگ میں میرا ہم دست ہے

اس شخص کا کفر و الحاد اور احکامِ خدا اور رسول سے روگردانی طشت از بام تھی اور کوفہ کے عام افراد بھی اس سے خوب واقف تھے۔ چنانچہ اس موقعہ پر جب حضرت مسلم ، جنابِ ہانی بن عروہ کے گھر پر فروکش تھے اور شریک بن اعور کی عیادت کے لئے ابن زیاد کے آنے کی خبر ہوئی اور شریک نے حضرت مسلم سے کہا کہ یہ موقع ہے کہ اس کو قتل کر ڈالئے۔ لیکن ابن زیاد آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر جناب مسلم نے کوئی اقدام اس کے قتل پر نہ کیا۔ اس پر شریک نے ابن زیاد کے جانے کے بعد مسلم سے اس کا سبب پوچھا تو جنابِ مسلم نے کہا:


خصلتان ام احد احمان کراحۃ ھانی ان یقتل فی دارہ امام الاخریٰ فحدیث حڈثہ الناس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الایمان قید القتل و لا یقتل مومن


یعنی (اس کے دو سبب تھے۔ پہلے تو یہ کہ ہانی کو یہ امر ناپسند تھا کہ ابن زیاد ان کے گھر میں قتل کیا جائے، دوسرے یہ کہ رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے کہ ایمان قتل پر پابندی عائد کرنے والا ہے اور کوئی مسلمان قتل نہیں کیا جا سکتا۔" یہ سن کر ہانی نے کہا:


امار اللہ لو قتلتۃ لقتلت فاسقا فافرا کافرا غادرا ولکن کرحت ان یقتل فی داری


خدا کی قسم، آپ یقین جانئے کہ اگر آپ اس کو قتل کر ڈالتے تو یہ کسی مسلمان کا قتل نہ ہوتا بلکہ ایک فاسق، فاجر ، کافر، غدار کا قتل ہوتا، بیشک مجھ کو یہ امر پسند نہ تھا کہ وہ میرے گھر میں قتل ہو۔

طبری جلد 6، صفحہ 4

اب ہم یہ بات قارئین کے انصاف پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ یہ عبید اللہ ابن زیاد، کہ جس کے باپ زیاد بن سمعیہ کو معاویہ نے اپنا بھائی بنا لیا تھا، اور جسے کوفہ کی حکومت دی، اور یہ پسرِ زیاد جس کو یزید نے پھر سے کوفہ کی حکومت دی اور جس پر یزید اتنا اعتبار کرتا تھا، کیا وہ عقیدتی امامی شیعہ تھا یا پھر شیعانِ معاویہ؟


عبید اللہ ابن زیاد کے اہل ِسنت سے تعلق پر یہی نہیں بلکہ باب نمبر 11 میں مزید روشنی ڈالینگے اور اس کے اہل ِ سنت ہونے پر بختہ ثبوت پیش کرینگے۔


ابن زیاد کی کوفہ آمد اور اھل کوفہ پر اس کی ھیبت


عبید اللہ ابن زیاد نے کوفہ میں اپنی آمد کو بالکل صیغہ راز میں رکھا تاکہ اس کی آمد اچانک ہو۔ اور پھر راستہ میں جبکہ کوفہ نزدیک رہ گیا، اس نے اپنی وضع میں تغیر پیدا کر کے ایک سیاہ عمامہ سر پر باندھا اور چہرہ پر اسی طریقہ سے جو عرب قوم کے بہادروں میں سخت موقعوں پر مرسوم ہے ایک ڈھانٹا باندھ لیا، جس کی بنا پر شناخت ناممکن ہو گئی۔ ایک مرتبہ شہر پناہ کوفہ کے اندر یہ نقشہ نظر آیا کہ آگے آگے عربی گھوڑے پر ایک رئیسِ قوم سیاہ عمامہ سر پر باندھے جو اشرافِ عرب کا امتیازی نشان تھا اور اس کے پیچھے ایک شاندار قافلہ زین و لجام، ساز و سامان سے آراستہ، اس حشم و خدم کو دیکھ کر ان توقعات کی بنا پر جو قائم تھیں، وہی ہونا چاہئے تھا جو ہوا۔ یعنی ہر شخص یہی سمجھ کر کہ حسین ابن علی تشریف لائے ہیں اور اس قائم شدہ اثر کی بنا پر جو دلوں میں تھا، جس جماعت کی طرف سے عبید اللہ کا گزر ہوتا تھا، وہ بنظر تعظیم کھڑے ہو کر آداب بجا لاتی تھی اور "خوش آمدید" کے معنوں میں یہ الفاظ زبان پر جاری ہوتے تھے "مرحبا بک یا ابن الرسول اللہ قدمت خیر مقدم"۔


ابنِ زیاد کسی کو کچھ جواب نہ دیتا تھا، بلکہ آوازوں کو سنتا، چہروں کو بغور دیکھتا، شکل و شمائل کو پہچانتا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ مجمع زیادہ ہو گیا اور لوگ اشتیاق میں گھروں سے نکل آئے۔ اور ہر شخص بخیال فرزندِ رسول کی زیارت کی تمنا میں آگے بڑھنے لگا اور نوبت یہ پہنچی کہ راہ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس وقت مسلم بن عمرو باھل ی نے جو ابنِ زیاد کے ساتھ تھا، پکار کر کہا:


راستہ چھوڑ دو یہ حسین نہیں امیر عبید اللہ ابن زیاد ہیں۔


نہ معلوم ان الفاظ میں کون سا اثر تھا کہ بڑھتے ہوئے قدم اور اٹھتے ہوئے ہاتھ اور مسرت آمیز ترانے سب موقوف ہو گئے اورر سناٹا سا چھا گیا۔ مجمع بھی تتر بتر ہوا اور جس وقت ابنِ زیاد دارالامارہ پہنچا ہے تو دس آدمیوں سے زیادہ اس کے ساتھ نہ تھے۔ (طبری، جلد 6، صفحہ 200)۔


اب ذرا فطری رجحانات پر غور کرتے ہوئے اھل ِ کوفہ کے موجودہ باطنی اضطرابات کا اندازہ کریں۔ ایک تو اچانک حادثہ جو غیر متوقع صورت سے ظہور پذیر ہوا، وہ خود سنسنی پیدا کر دیا کرتا ہے ۔ اس پر یہ صورتِ حال کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنے خلاف جاسوسی کے فرض کو ادا کیا یعنی اپنے باطنی خیالات و جذبات اور حیسن کے ساتھ خلوصِ عقیدت کو خود ابنِ زیاد کے سامنے پیش کر دیا۔ اور ابنِ زیاد نے صاف ایک ایک کے چہرہ اور آواز کو پہچان رکھا ہے۔ اور ابنِ زیاد وہ ہے کہ جس کی اور جس کے باپ کی تلوار کے نیچے بیس برس تک اس تمام خلقت کی گردنیں اس طرح خم رہی ہیں کہ جس کو چاہا گرفتار کیا، سولی پر لٹکا دیا۔ جلاد کے ہاتھ سے اس کی رگ و گردن کو قطع کرا دیا۔ اور ایسے ھیبت ناک مناظر انہی ہاتھوں سے آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں جس کو سوچ کر اب تک رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور دل ہل جاتے ہوں گے۔ اور اب وہی صورتیں اپنے اور اپنی اولاد اور اعزاء و اقارب کے لئے پیشِ نظر ہیں۔ کیا یہ وجوہات ایسی نہ تھیں کہ جن کی بنا پر دل و دماغ معطل، قوائے عمل سلب اور طاقتیں مضمحل اور ہمتیں پست ہو جائیں اور دلوں پر عظیم خوف و ہراس کا غلبہ ہو جاتا؟


کوفہ میں کرفیو کی سی صورتحال


عربستان کا ایک طریقہ ہے کہ بڑے شہروں میں ہر محلہ کا ایک مختارِ محلہ ہوتا ہے جو اس محلہ کی مردم شماری، وارد و صادر، زندہ و مردہ، شادی شدہ و غیر شادی شدہ وغیرہ امور کے تشریحات کا مقامی حکومت کی طرف سے ذمہ دار ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص اس محلہ سے کسی جرم کا مرتکب ہو یا کہیں مفرور ہو، اس کی جواب دہی و سراغ رسانی کی ضمانت بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے۔


ابنِ زیاد نے مسجدِ جامع میں ایک تہدیدی تقریر کے بعد سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ کہ تمام محلاتِ کوفہ کے ذمہ دار اشخاص کو جن سے عرافت یعنی مختاریِ محلہ کا منصب تعلق رکھتا تھا، بُلا کر یہ فرمان جاری کیا کہ جلد سے جلد ہر محلہ کی مردم شماری اور جو لوگ نئے آئے ہیں ان کی فہرست اور جن لوگوں سے حکومتِ شام کو خطرہ ہے اُن کے نام ادارہِ حکومتِ محلیہ میں پیش کر دیے جائیں۔ اور اگر وہ کسی وجہ سے ان ناموں کو تفصیل دار لکھنے سے معذور ہوں تو ضمانت داخل کریں کہ ان کے محلہ میں سے کوئی شخص بھی حاکمِ شام کی مخالفت پر آمادہ نہ ہو گا۔ اور اس کے خلاف ظاہر ہوا تو اس مختارِ محلہ کو خود اس کے گھر کے دروازہ پر سولی دی جائے گی۔ اور اس کے خاندان سے ہمیشہ کے لئے اس منصب کو علیحدہ کر لیا جائے گا۔ (طبری، صفحہ 201)۔


یہ مضبوط تدبیر ایسی نہ تھی جس کی کامیابی مشتبہ ہو۔ کوفہ کا چپہ چپہ حکومت کے مخبرین کی کثرت سے غیر محفوظ نظر آنے لگا اور مارشل لاء کے ایسے سخت قانون میں وہ تنبیہی طاقت نہیں جو اس صورت سے پیدا ہوئی، اس لئے کہ اب ہر شخص خاص اپنے محلہ میں ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ڈرتا، جھجکتا اور اپنی جان کے خطرہ کا احساس کرتا تھا۔ اور اس طرح دس آدمیوں یا پانچ آدمیوں کا بھی ایک جگہ جمع ہو کر کسی امر پر گفتگو کرنا اور کوئی قرارداد طے کرنا ناممکن ہو گیا۔


اس صورتِ حال کے بعد کوفہ کی رائے عام کا منقلب ہو جانا کوئی عجب امر نہ تھا، جبکہ اھل کوفہ کی اُس عامہ میں کہ جنہوں نے بیعت کی تھی، سب کے اندر کوئی مذہبی روح بھی کار فرما نہ تھی، جو ان کو سخت موقع کے لئے اپنی جان کو خطرات میں ڈالنے پر استقلال سے آمادہ رکھتی، بلکہ اس جمِ غفیر کے اتفاق و اجتماع کی نوعیت وہی تھی، جس کے اسباب کو پہلےہی ہدیہ قارئین کیا جا چکا ہے۔


کوفہ میں مقیم امیرمعاویہ کی سرکاری افواج


اھل کوفہ کے متعلق بات کرتے وقت لوگ جس چیز کو سب سے زیادہ نظر انداز کرتے ہیں، وہ امیر معاویہ کے زمانے سے ہی دمشق سے آئی ہوئی سرکاری فوج اور پولیس تھی، جو کہ کوفہ میں ہی مقیم ہو گئی تھی۔ اسی سرکاری افواج کے بل بوتے پر زیاد بن سمعیہ مسلسل کئی سالوں تک کوفہ میں قتل عام کرتا رہا، مگر کسی کو اُسکے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ ہو سکی۔ یہ سرکاری فوجیں مکمل طور پر یزید کی حامی تھیں اور جب یزید نے ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا، تو یہ سرکاری فوجیں مکمل طور پر ابن زیاد کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ اور اسی سرکاری فوجوں کے بل بوتے پر ابن زیاد نے تھوڑے ہی عرصے میں پورے کوفہ پر پھر قبضہ جما لیا۔


مسلم بن عقیل کی مدد کرنے والوں کی گرفتاریاں


ابنِ زیاد نے ایک تدبیر یہ بھی کی کہ شہر کی ناکہ بندی کرا دی، یعنی چوراہوں اور عام راستوں پر پہرے بٹھا دیئے کہ کوئی جناب مسلم کی مدد کو نہ آ سکے۔ چنانچہ جو کوئی بھی اب جنابِ مسلم کی امداد کو آنا چاہتا، وہ فوراً گرفتار ہو جاتا۔ چنانچہ عبد الاعلیٰ ابن یزید کلبی اپنے گھرانے کے کچھ نوجوانوں کو ساتھ لئے ہوئے آ رہا تھا جس کو کثیر بن شہاب نے گرفتار کیا اور محلہ بنی عمارہ کی طرف سے عمادہ بن صلخب نے ہتھیار جسم پر آراستہ کر کے چاہا تھا کہ مسلم کے پاس آئیں، لیکن محمد بن اشعث نے گرفتار کر لیا۔ یہ دونوں جانباز مسلم اور ہانی کی شہادت کے بعد پسرِ زیاد کے حکم سے قتل کر ڈالے گئے۔ (طبری جلد 6، صفحہ 206)۔


یہاں کچھ روشنی محمد بن اشعث پر بھی ڈالدی جاََئے۔ امام حسین کی دشمن فوج کا یہ کارندہ بھی 'عامہ' یعنی آ ج کی زبان میں ' سنیوں ' میں سے تھا نہ کہ شیعہ الخاصہ (یعنی عقیدتی / امامی / رافضی شیعہ) میں سے۔ یہ دشمن ِحسین بھی مذہب ِاہل ِسنت کی بنیادی احادیث کی کتابوں کا ایک بھروسہ مند راوی ہے۔ اس کی بیان کردہ احادیث ان کتابوں میں موجود ہیں:

1۔ موطا، ج 2 ص 519
2۔ سنن ابی دائود، ج 2 ص 146
3۔ سنن النسائی، ج 7 ص 302
4۔ سنن الکبریِ البھقی، ج 5 ص 332

تھذیب الکمال، ج 24 ص 496 میں ہے کہ امام ابن حبان نے محمد بن اشعث کا شمار اپنی کتاب 'الثقات' میں کیا ہے جس میں امام ابن حبان نے صرف ثقہ راویوں کا شمار کیا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب 'تقریب التھذیب' ج 2 ص 57 ترجمہ نمبر 5760 میں محمد بن اشعث تابعی کہا ہے اور حدیث کے حوالے سے اس دشمن ِ اہل ِبیت کو 'مقبول' کا درجہ دیا ہے۔ سنن ابو دائود میں موجود اس حدیث کو جس کو محمد بن اشعث نے بیان کیا ہے اسے سلفیوں / وہابیوں کے امام ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب 'صیح سنن ابو دائود ' ج 2 ص 670 حدیث نمبر 2997 میں 'صحیح' قرار دیا ہے۔


اہل ِسنت کا یہ پیشوا ان لوگوں میں شامل تھا جو کہ جناب امیرمختار کے ہاتھوں قاتلان ِ امام حسین سے بدلہ لینے کے دوران قتل کئے گَئے( تھذیب الکمال، ج 24 ص 496 ترجمہ نمبر 5074)۔


اور اس دشمن ِ اہل ِبیت کا شجرہ نسب ایک مشہور صحابی کے گھرانے سے بھی ملتا ہے جس گھرانے کا مذہب ِاہل ِاسنت میں خاص مقام ہے۔ تھذیب الکمال، ج 24 ص 495 میں ہم اہل ِسنت کے اس ہیرو کا تعارف اس طرح پڑھتے ہیں:


محمد بن الاشعث بن قیس الکندی ابوالقاسم الکوفی، ان کی والدہ ام فروہ بنت ابی قحافہ، ابو بکر الصیق کی بہن تھیں


محمد بن الاشعث کے علاوہ ایک اور دشمن ِاہل ِبیت کا ذکر گزرا جس کا نام کثیر بن شہاب ہے۔ اسے بھی کسی سنی عالم ِ دین نے شیعہ الخاصہ میں شمار نہیں کیا ہے بلکہ یہ موصوف بھی اہل ِسنت کی حدیث کی کتابوں کے راوی ہیں۔ اس پر ہم دوسرے باب میں روشنی ڈالینگے۔


دمشق سے مرکزی فوجیں آنے کی خبریں


ایک اور کام جو ابن زیاد نے کیا وہ یہ کہ خبریں پھیلا دیں کہ دمشق سے مرکزی فوجیں کوفہ پہنچنے والی ہیں۔ دمشق سے فوجیں آنے کی خبر ایسی نہ تھی جو اضطراب پیدا نہ کرے۔ اس خبر سے ایک عام دہشت پیدا ہو گئی۔ حالت یہ تھی کہ:


عورتیں اپنے باپ، بھائی کے پاس آتیں اور کہتیں تھیں کہ چل ، واپس چل۔ دوسرے لوگ کافی ہیں اور باپ یا بھائی اپنے بیٹے یا بھائی کے پاس آ کر کہتا تھا کہ کل دمشق سے لشکر آئے گا۔ پھر تو کیا کرے گا؟ چل، لڑائی سے کنارہ کشی کر کے اور مجبور کر کے اُسے اپنے ساتھ واپس لے جاتا تھا۔

طبری، صفحہ 208

اب شہر میں خون و دہشت کی کامل عملداری اور رعب و ھیبت کا پورا دور دورہ تھا۔ لوگ گھروں سے نکلنا خطرہ سمجھتے تھے۔اور اس لئے چاروں طرف سناٹا اور ہُو کا عالم تھا اور ایک کو ایک کی خبر نہ تھی۔


ابن زیاد کے اقدامات کے نتیجہ میں کوفہ کے الشیعہ خاصہ کی صورتحال


الشیعہ الخاصہ اور حسین (ع) کے ہمدرد جو مٹھی بھر سے زیادہ نہ تھے اس وقت عجب عالم میں تھے۔ ان کو چھپنے کے لئے گوشوں کی تلاش تھی۔ جن کا ملنا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ ابنِ زیاد کو معلوم تھا کہ عنقریب حسین (ع) تشریف لانے والے ہیں اور اگرچہ ہمتیں پست ہو چکی ہیں، لیکن ان کے آنے سے کہیں پھر انقلاب پیدا نہ ہو جائے۔ لہذا اس نے تلاش کر کے جن جن اشخاص سے اندیشہ ہو سکتا تھا انہیں قید کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مختار بن ابو عبیدہ ثقفی، جو جنابِ مسلم کے خروج کے موقع پر کوفہ میں موجود نہ تھے، اور اسی دن اطلاع پا کر آئے، لیکن ایسے وقت پہنچے کہ جنابِ مسلم شہید ہو چکے تھے اور عمرو بن حریث نے رایتِ امن بلند کیا تھا کہ جو شخص اس کے نیچے چلا آئے اس کا جان و مال محفوظ ہے، لیکن مختار کو امان نہ مل سکی اور پپابزنجیر کر دیئے گئے تھے اور اسی طرح عبداللہ بن حارث بن نوفل اور دیگر اشخاص۔


ادھر حاکمِ اعلیٰ یزید نے بھی جنابِ مسلم کی شہادت کے بعد ابنِ زیاد کو حسین (ع) کے قصدِ عراق پر مخصوص طور سے توجہ دلاتے ہوئے لکھا:


مجھ کو خبر معلوم ہوئی ہے کہ حسین عراق کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں۔ اب تم ہوشیاری کے ساتھ جاسوس مقرر کرو اور وہم و گمان بھی خطرہ کا ہو تو اس سے تحفظ کرو اور بدگمانی جس پر ہو، اُسے فوراً گرفتار کر لو۔

طبری، جلد 6، صفحہ 215

اب کیا تھا، قید و بند کا سلسلہ جاری ہو گیا اور جیل خانے قیدیوں سے چھلکنے لگے۔ اس سیاست کی نوعیت کا اندازہ ابنِ زیاد کی اس تقریر میں جو یزید کی ہلاکت کے موقع پر اس نے کی ہے، اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے:


کوئی ایسا شخص نہیں جس پر گمان بھی ہو سکتا تھا کہ وہ حکومت کی مخالفت کریگا، مگر یہ کہ وہ قید خانہ کے اندر ہے۔

طبری، جلد 7، صفحہ 18

نیز اس گفتگو سے جو اس موقع پر جبکہ ابن زیاد یزید کے مرنے کے بعد بصرہ سے فرار ہو کر دمشق جا رہا تھا، راستہ میں سیاف بن شریح سے کی ہے، جس میں اس نے کہا:


میں ابھی اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ کاش میں نے ان لوگوں کو جو قید خانہ میں بند تھے، نکال کر گردن زنی کا حکم دے دیا ہوتا

طبری، جلد 7، صفحہ 70
(اس لیے کہ وہی لوگ بعد میں انقلاب کا سبب ہوئے جیسا کہ جنابِ مختار وغیرہ)

اس صورت سے حکومت کی طرف سے شہر کے داخلی حالات پر پورا قابو حاصل کر لیا گیا۔ جس کے بعد کسی شخص میں اتنی طاقت نہ رہی کہ وہ مخالفت کا نام بھی زبان پر لائے۔ اب اس کی توجہ خارج کیطرف ہوئی کہ کہیں بصرہ و مدائن اور دیگر اطراف کے لوگ کہ جہاں شیعہ کافی تعداد میں ہیں، کوئی در اندازی نہ کریں۔ نیز حیسن کی، جن کا آنا قریبی زمانہ میں یقینی ہے، ان کے ساتھ کسی سازباز کے لئے کوئی جماعت باہر نہ جانے پائے۔


دوسرے شہروں سے آمدِ شیعہ روکنے کے لیےکوفہ و مضافات کی ناکہ بندی


اب یزید کے حکم سے کوفہ و آس پاس کے دیگر شہروں کی حدود کی ناکہ بندی ہوئی اور قادسیہ میں جو حجاز و عراق و شام کے خطوط زیر کا محلِ اجتماع تھا، کئی ہزار سواروں کے ساتھ حصین بن تمیم کو مقرر کیا گیا، جو اب تک کوتوالِ شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور واقصہ سے لے کر قطقطانہ، لعلع اور خفان اور اطراف و جوانب میں جو شام اور بصرہ کے راستے تھے، ان سب میں لشکر پھیلا دیا گیا۔ یہاں تک کہ نہ کوئی شخص آ سکتا تھا اور نہ باہر جا سکتا تھا۔ چنانچہ قیس بن مسہر صیدادی اور عبد اللہ بن یقطر، جو امام حسین کے فرستادہ اھل ِ کوفہ کے نام خط لے جا رہے تھے، وہ اسی قادسیہ میں پہنچ کر حصین کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور خود سید الشہدا جب ان حدود میں پہنچے اور صحرائی عربوں سے حالات کو دریافت کیا تو انہوں نےکہا:


خدا کی قسم، ہمیں کچھ نہیں معلوم، لیکن اتنا ہے کہ ہم نہ اندر جا سکتے ہیں اور نہ باہر نکل سکتے ہیں۔


حُر بن یزید ریاحی، جو ایک ہزار کے لشکر سے امام حسین کا سدِ راہ ہوا تھا، وہ بھی اسی فوج میں سے تھا، جو قادسیہ میں حصین کی سرکردگی میں مقرر تھی۔ یہ سب اسی لئے تھا کہ کوئی امام حسین کی مدد کے لئے کوفہ سے نہ آ سکے۔ یہاں تک کہ طرماح بن عدی اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ جب کوفہ سے غیر معروف راستہ سے آ کر امام حسین کے ساتھ ملحق ہوئے، اس وقت حُر نے آ کر حضرت سے کہا کہ:


"یہ لوگ جو اھل ِ کوفہ میں سے ہیں، آپ کے ساتھ مکہ سے نہیں آئے ہیں۔ لہذا میں ان کو گرفتار کرتا ہوں۔ یا کوفہ واپس جانے پر مجبور۔"لیکن حضرت نے اس فرمان پر کہا "اب جبکہ یہ میرے پاس پہنچ گئے ہیں، تو میرے ہی اصحاب و انصار میں داخل ہیں اور اب ان کی حفاظت مجھ پر فرض ہے۔ لہذا ناممکن ہے کہ میں ان کو تمہارے سپرد کر دوں" اور اس پر حُر کو ساکت ہونا پڑا

طبری، جلد 6، صفحہ 220

اس موقع پر کہ جب امام حسین کربلا میں پہنچ چکے تھے، خود ابنِ زیاد نے کوفہ سے نکل کر نخلیہ میں اپنا مرکز قرار دے لیا تھا اور وہیں افواج کا معائنہ ہوتا تھا اور انہیں ترتیب دے کر کربلا روانہ کیا جاتا تھا (تصدیق کے لئے دیکھئے طبری، جلد 7 صفحہ 47)۔


اھل کوفہ کی گرفتاری جو امام حسین سے جنگ نہیں چاہتے تھے


اب صورتحال یہ تھی کہ الشیعہ خاصہ تو قتل کر دیے گئے، یا پھر قید کر لیے گئے۔ اب کوفہ کے عامہ میں سے لوگوں کو ابن زیاد کے حکم سے زبردستی کربلا روانہ کیا جاتا۔ اھل کوفہ کے یہ عامہ کے لوگ بھی امام حسین (ع) سے جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے، لہذا موقع ملتے ہی وہ کوفہ واپس بھاگ جانے کی کوشش کرتے۔ اس کے لئے ابن زیاد نے سوید بن عبدالرحمن منقری کو کچھ سواروں کے ساتھ کوفہ روانہ کیا کہ جو ایسا شخص وہاں ملے، اس کو گرفتار کر کے روانہ کیا جائے۔ سوید نے ایک شخص کو اھل ِ شام میں سے جو کوفہ کسی اپنے ذاتی معاملہ کے لئے آیا تھا گرفتار کر کے ابنِ زیاد کے پاس بھیجا اور اس نے ھیبت قائم کرنے کے لئے اس کو قتل کرا دیا، جس کے بعد وہ تمام لوگ جو ٹہر گئے تھے، نکل کر کربلا روانہ ہو گئے (الاخبار الطوال، صفحہ 252)۔


ان اجتماعات سے صریحی طور پر چند نتائج مرتب ہوتے ہیں:


1. کوفہ کی جماعتِ الشیعہ خاصہ میں جو حیسن کی ہمدرد ہو سکتی تھی اور جن کی نصرت کا خیال ہو سکتا تھا، ایک کثیر تعداد قتل کر دی گئی اور باقی ماندہ لوگ پا بزنجیر کر لیے گئے۔ اور اس طرح نہ معلوم کتنے باہمت اور پُر جگر اشخاص ہوں گے جو اگر باہر ہوتے تو اپنی جان حسین پر سے نثار کرتے۔ لیکن اس موقع پر وہ تاریک زنداں میں مقید تھے۔


2. حدود کی ناکہ بندی نے کوفہ کے رہے سہے اشخاص کے لئے، جن میں جذبہ نصرتِ حسین ہو سکتا تھا، حضرت تک پہنچنے کو دشوار سے دشوار بنا دیا تھا۔ اور اگر وہ آنے کا قصد کرتے بھی تو یقیناً نخلیہ میں، کہ جو بالکل کوفہ کے نکڑ پر کربلا کے راستہ میں تھا، گرفتار کر لئے جاتے یا آگے بڑھ کر قادسیہ اور خفان اور قطقطانہ و لعلع کی منزل پر وہ پکڑے جاتے۔


3. ابنِ زیاد کی طرف سے یہ اھتمام تھا کہ کوئی جنگ آزما شخص کوفہ میں ایسا باقی نہ رہ جائے جو حسین (ع) سے جنگ کے لئے نہ نکلے اور اس طرح ان افراد کے لئے جو حسین کے مقابلہ میں جانے سے نفرت کرتے تھے، اس جرم سے حفاظت بھی تلفِ جان و مال کی ضامن بن گئی تھی۔ یعنی جیسے ہی عامہ میں سے جنگ کے قابل کوئی شخص امام حسین (ع) کے خلاف جنگ کرنے سےانکار کرتا، اُسی وقت اُسکو شیعانِ علی جانتے ہوئے اُسکی جان و مال کو لوٹ لیا جاتا۔


باوجود سخت دشواریوں کے شیعانِ خاصہ کی نصرتِ حسین


لیکن باوجود ان دشواریوں کے ان ہمت شکن مشکلات کے ان طاقت ربا مصائب کے ہم دیکھتے ہیں کہ الشیعہ الخاصہ کے وہ افراد جو حسینی دعوت کے بانی و مبلغ اور اس تحریک کے داعی و مروج تھے، اور سب سے پہلے خط بھیجنے والوں میں سے تھے، اور جنہوں نے وفاداری کا اقرار اور جانبازی کا عہد کیا تھا، وہ کسی نہ کسی طرح کربلا میں حسین تک پہنچ گئے اور اپنی جانیں انکے قدموں پر نثار کیں۔


1. یاد کریں وہ وقت کہ جب مسلم بن عقیل (ع) نے امام حسین کا خط پڑھ کر سنایا تھا، تو کون لوگ تھے اس وقت تقریر کر کے عہدِ نصرت و فداکاری کرنے والے؟ بے شک وہ تین آدمی تھے، عابس بن ابی شبیب شاکری، حبیب ابنِ مظاہر اور عمر سعید بن عبداللہ حنفی۔


2. کون تھا مسلم بن عقیل کا وکیل و نائب اور رازداری کے ساتھ حسین کی بیعت لینے والا؟ یقیناً وہ مسلم بن عوسجہ اسدی تھے۔


3. کون تھا مسلم کے ادارہِ اسلحہ کا منتظم اور جمع اموال کا موتمن و معتمد؟ بلاشبہ وہ صرف ابو ثمامہ صیدادی تھے۔


4. پھر کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے ثباتِ قدم و استقلال کے ساتھ آخر دم تک حسین کا ساتھ نہیں چھوڑا؟ اور آخر ان کی لاشیں حسین کے قدموں پر خاک و خون میں تڑپتی ہوئی نظر آئیں؟ ان کے علاوہ بھی حسینی جماعت میں زیادہ تر کوفہ کے شیعہ خاصہ تھے جیسے:


5. بریر بن خضیر حافظِ قران مجید، کہ جن کو دیکھ کر لشکرِ عمرِ سعد میں کہا گیا تھا: ِ تو وہی بریر بن خضیر ہیں جو ہم کو مسجد میں بیٹھ کر قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔"ری جلد 6، صفحہ 247)۔


6. اور انس بن حارث اسدی صحابیِ رسول (ص) جن کا تذکرہ ابنِ اثیر جزری نے اسد الغابہ میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں کیا ہے۔ ابنِ اثیر کا قول ہے کہ:


ان کا شمار اھل ِ کوفہ میں ہے اور یہ امام حسین کی خدمت میں پہنچے تھے اس وقت جب آپ کربلا میں اُتر چکے تھے اور شب کے وقت حضرت کے پاس پہنچے۔ ان لوگوں کے ذیل میں جن کے بخت نے یاوری کی تھی۔


7. اور نافع بن ہلال جملی جو کوفہ کے قبیلہ مذحج سے تھے۔

8. اور حنظلہ بن اسد
9. اور مجمع بن عبداللہ عائذی
10. اور عائذ بن مجمع
11. اور عمر بن خالد صیدادی
12. اور جنادہ بن حارث سلمانی
13. اور موید بن عمرو
14. اور موقع بن ثمامہ اسدی
15. اور سیف بن حارث بن سریع ہمدانی
16. اور مالک بن عبد اللہ بن سریع
17. اور سوار بن منعم ہمدانی
18. اور عمر قرظہ انصاری
19. اور نسیم بن عجلان انصاری
20. اور عبداللہ بن بشر خشعمی
21. اور حارث بن امراء القیس کندی
22. اور بشر بن عمر کندی
23. اور عبداللہ بن عروہ و عبدالرحمن بن عروہ نامی دونوں بھائی
24. اور عبد اللہ بن عمیر کلبی
25. اور سالم بن عمرو کلبی
26. اور مسلم بن کثیر ازدی
27. اور دافع بن عبد اللہ ازدی
28. اور قاسم بن حبیب ازدی
29. اور زہیر بن مسلم ازدی
30. اور نعمان بن عمرو
31. اور مسعود بن حجاج تیمی
32. اور جوین بن مالک تیمی
33. اور عمر بن ضبیعہ تیمی
34. اورر حباب بن عامر تیمی
35. اور امیہ بن سعد طائی
36. اور ضرضام بن مالک ثعلبی
37. اور کنانہ بن عتیق ثعلبی
38. اور قاسط بن زہیر کردوس بن زہیر ثعلبین
39. اور جبلہ بن علی شیبانی
40. اور یزید بن زیاد بن مہاجر ابو الشعثاء کندی وغیرہ۔
حیرت ہے کہ بغض ِ اھل یبت کو دل میں چھپائے سپاہ صحابہ جیسے نجس نواصب کو ابھی تک یہ شیعانِ خاصہ نظر نہیں آئے اور نہ انکی شہادت نظر آئی۔ اسی طرح ناصبی حضرات کو توابون میں شامل شیعہ تو نظر آ جاتے ہیں، مگر یہ اوپر والے الشیعہ خاصہ نظر نہیں آتے جنہوں نے کربلا میں اپنی جانیں قربان کر کے نصرتِ امام حسین (ع) کی اور نہ ہی ان بےغیرت ناصبیوں کو وہ کُھلے قاتلان ِ حسین نظر آتے ہیں جو کہ خود ان (اھل ِ سنت) کی معتبر کتابوں کے ثقہ راوی تسلیم کیئے جاتے ہیں ۔ اور کیوں نہ ہو! بے غیرتی اور بےشرمی سے نواصب کو بھلا کیا دشمنی!

مندرجہ بالا حضرات تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر عہدِ وفا کو پورا کرنے کے لئے اپنے تئیں کسی نہ کسی طرح حسین (ع) کے قدموں تک پہنچا دیا۔ لیکن جو لوگ الشیعہ خاصہ میں سے حسین کی نصرت کے لئے نہ پہنچے یا نہ پہنچ سکے، ان میں سے بھی کسی شخص کا حسین کے مقابلہ میں کربلا میں موجود ہونا پایا نہیں جاتا اور جن لوگوں کا کھلم کھلا امام حسین کے خلاف لڑنا ثابت ہے وہ اھل ِ سنت حضرات کی معتبر کتابوں کے ثقہ راوی ہیں۔ ان اھل سنت ثقہ راویانِ حدیث کے متعلق تفصیل سے ہم آگے تذکرہ کریں گے۔ انشاء اللہ۔


امام ابن جریر طبری کا بیان ہے:


جب حسین قتل ہو گئے اور ابن زیاد اپنے لشکرگاہ سے، جو نخلیہ میں قرار دیا گیا تھا، واپس جا کر کوفہ میں داخل ہوا تو شیعوں نے ایک دوسرے سے ملاقات کر کے ایک دوسرے پر ملامت اور اپنی کمزوری پر ندامت کا اظہار شروع کیا اور وہ سمجھے کہ ہم سے بڑا جُرم ہوا کہ ہم نے حسین کو نصرت کے وعدہ پر دعوت دی۔ اور پھر جب وہ آئے تو ہم ان کی نصرت کو نہ گئے اور وہ ہمارے پڑوس میں قتل کر ڈالے گئے اور ہم نے کچھ ان کی مدد نہ کی اور انہوں نے دیکھا کہ یہ عار وننگ ہم سے دور نہیں ہو سکتا،مگر یہ کہ ہم اُن لوگوں کو جو اُن کے قتل میں شریک ہوئے ہیں، انہیں قتل کر یں یا خود اس سلسلہ میں اپنی جانیں نثار کر دیں

طبری، جلد 7، صفحہ 27

یہ روایت بھی ناصبی پروپیگنڈہ کے خلاف یہ ثابت کر رہی ہے کہ شیعانِ کوفہ اگرچہ حسین (ع) کی مدد کرنے سے قاصر رہے لیکن کربلا میں امام حسین (ع) کے خلاف نہیں لڑے۔ اس روایت میں دو گروہوں کا ذکر ہے۔


1. پہلا گروہ اُن شیعوں کا ہے جو نصرت کے لیے نہیں جا سکے۔


2. اور یہ پہلا گروہ ایک ایسے دوسرے گروہ کو قتل کرنے کی قسم کھا رہا ہے، کہ جو امام حسین (ع) کے قتل میں شریک ہوا۔


پس یہ شیعوں کا پہلا گروہ قتل حسین میں شریک نہیں تھا، بلکہ انکی زیادہ سے زیادہ خطا یہ تھی کہ وہ وقت پڑنے پر امام ع کی امداد کو نہیں پہنچے اور وہ بھی ابن زیاد کی جانب سے اُن سخت اقدامات کی وجہ سے جن کو ہم نے تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ پھر سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر اجتماع ہوا اور اس موقع پر مسیب بن نجبہ نے جو تقریر کی ہے وہ یہ ہے کہ:


ہم اپنی صداقت پر ناز کرتے تھے اور اپنی جماعتِ شیعہ کی مدح و ثنا کیا کرتے تھے۔ لیکن خدا نے ہمارا امتحان لیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ ہمارے دعوے غلط ہیں۔ ہم نے حسین کو دعوت دی، انکے پاس پیغام بھیجے کہ آئیے ہم مدد کریں گے۔ لیکن جب وہ آئے تو ہم نے اپنی جانوں کو چھپا لیا۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے پڑوس میں قتل ہو گئے۔ نہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے ان کی نصرت کی اور نہ اپنی زبان سے ان کی حمایت کی۔ اور نہ اموال سے ان کو تقویت پہنچائی اور نہ اپنے قبیلہ کو ان کی نصرت پر آمادہ کیا۔ اب خدا اور رسول (ص) کو کیا جواب دیں گے۔ جب کہ ہمارے ملک میں فرزندِ رسول قتل کر ڈالا گیا۔ بے شک ہمارا کوئی عذر سننے کے قابل نہیں۔ لیکن اب یہ موقع ہے کہ جن لوگوں نے ان کے قتل میں شرکت کی ہے، انہیں قتل کریں یا اسی سلسلہ میں اپنی جانیں نثار کر دیں

طبری، جلد 7،صفحہ 48

یہ روایت بھی ناصبی پروپیگنڈہ کو رد کر رہی ہے اور صریحی طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ قاتلانِ حسین یا قتلِ حسین میں شرکت کرنے والی جماعت، جماعتِ شیعہ سے کوئی تعلق نہ رکھتی تھی۔ اس کے بعد جب کہ سلیمان بن صرد اس جماعت کے قائدِ اعظم کی حیثیت سے منتخب ہو گئے تو انہوں نے جو تقریر کی اور جس کو وہ برابر ہر جمعہ میں دہرایا کرتے تھے، اس کا ایک اقتباس یہ ہے کہ:


ہم لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کراشتیاق کے ساتھ اھل ِ بیت رسول کی تشریف آوری کے منتظر تھے اور ان کو نصرت کی امیدیں دلاتے تھے اور آنے پر آمادہ کرتے تھے۔ لیکن جب وہ آئے تو ہم نے کمزوری کی اور عاجز رہے اور سستی کو کام میں لائے اور منتظر رہے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے یہاں تک کہ ہمارے ملک میں اور ہمارے قریب ہی فرزندِ رسول (ص) قتل کر ڈالے گئے جبکہ وہ فریاد کر رہے تھے لیکن کوئی انصاف سے کام نہ لیتا تھا۔ فاسقین کی جماعت نے ان کو اپنے نیزوں کا نشانہ اور تیروں کا سرِ مشق بنا لیا یہاں تک کہ انہیں شہید کر ڈالا

طبری، جلد 7، صفحہ 49

اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ کوفہ ہی میں رہ گئے تھے اور قتلِ حسین میں شرکت کرنے والی جماعت فاسقین ان سے جداگانہ ہے اور یہ فاسقین کی جماعت کہ جنہوں نے امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں پر مظالم کی انتہا کردی نواصب ہی کے مذھب کے معتبر کتابوں کے راوی ہیں۔


قتل حسین کے ذمہ دار شیعہ نہیں، بلکہ عامہ کے شیوخ و اشرافِ قبائل تھے


پھر وہ موقع کہ جب یزید ہلاک ہوا اور سلیمان بن صرد کے پاس شیعی جماعت کے بہت سے افراد نے آ کر کہا کہ اسوقت حکومت کے ارکان میں تزلزل ہے اور یہی موقع ہے کہ ہم انتقام کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے قاتلوں کو چن چن کر قتل کریں۔ اس وقت سلیمان نے جو تقریر کی وہ یہ ہے:


میں نے اس معاملہ میں غور کیا تو یہ دیکھا کہ قاتلانِ حسین کوفہ کے سربرآور وہ اشخاص اور شیوخ و اشرافِ قبائل ہیں اور انہی کے اوپر حسین کے قتل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور جب انہیں تم لوگوں کے ارادے کی خبر ہو گی اور یہ معلوم ہو گا کہ اس کا اثر ان پر پڑے گا تو وہ سختی سے تمہاری مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اور میں نے اندازہ کیا اُن لوگوں کو جو میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں، تو معلوم ہوا کہ وہ اتنی تعداد میں ہیں کہ ان کے خروج کرنے سے نہ تو انتقام لیا جا سکتا ہے اور نہ مقصد حاصل اور نہ دشمن کو کئی نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ یہ لوگ گوسفندوں کی طرح کاٹ کر ڈال دیئے جائیں گے۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ تم اپنے دعاۃ و مبلغین اطراف میں روانہ کر کے لوگوں کو اپنی موافقت پر آمادہ کرو۔

طبری، جلد 7، صفحہ 52

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتلِ حسین کے ذمہ دار اشخاص 'عامہ' کے شیوخ و اشرافِ قبائل تھے، جن کی حقیقت مختصر طور پر ہم نے سابق میں واضح کر دی اور یہ کہ جماعت شیعہ کو ان سے کوئی تعلق نہ تھا، نیز اس شیعی جماعت کی جو کوفہ میں موجود تھی، تعداد بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتی تھی یعنی یہ شیعہ جماعت اتنی قلیل تھی کہ عامہ کے ان شیوخ و اشراف قبائل کے مقابلے میں آتے تو گوسفندوں کے مانند مارے جاتے۔ پھر وہ تقریر جو عبید اللہ بن عبداللہ کی زبان سے تاریخ میں درج ہے، اس میں بھی ہے کہ :


فرزندِ رسول (ص) کے لئے دشمن قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے اور دوستوں نے ان کی مدد نہ کی۔ پس عذاب کے مستحق ہیں ان کے قتل کرنے والے اور سرزنش کے لائق ہیں ان کو چھوڑ دینے والے، نہ ان کے قاتل کے لئے خدا کے یہاں کوئی حجت ہے اور نہ ان کے بے مددگار چھڑنے والوں کا کوئی عذر قابلِ سماعت ہے۔ مگر یہ کہ وہ اب سچے دل سے توبہ کر کے ان کے قاتلوں سے جہاد کریں اور ظالموں سے جنگ کریں۔

طبری، جلد 7،صفحہ 52

وہ وقت کہ جب یہ لوگ بعزمِ جہاد کوفہ سے کربلائے معلیٰ آئے ہیں، اس موقع پر مثنی بن مخبریہ نے جو تقریر کی تھی، اس میں یہ فقرا قابلِ توجہ ہیں:


حسین و انصارِ حسین کو ایک ایسی جماعت نے قتل کیا جن کے ہم دشمن اور جن سے ہم بیزار ہیں اور اب ہم اپنے اھل و عیال کو چھوڑ کر اپنے گھر سے اس لئے نکلے ہیں کہ ان کے قاتلوں کے رگ و ریشہ کو فنا کر دیں

طبری، جلد 7،صفحہ 271

ان تاریخی نصوص و شواہدسے آفتاب کی طرح روشن ہو جاتا ہے کہ جماعتِ شیعہ میں سے کوئی شخص بھی قتل ِامام حسین (ع) کے لئے کربلا میں موجود نہ تھا۔

Comments

Post a Comment